پاکستان کی سیاست میں ان دنوں اٹھارویں ترمیم موضوعِ بحث ہے اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما مسلسل اس ترمیم پر بات کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے 21 ماہ کے دورِ حکومت کے تیسرے وفاقی وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے حال ہی میں عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد جو پہلی پریس کانفرنس کی۔ اس میں اُن کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں ملک بھر میں ایک ہی پالیسی رکھنے میں 18ویں آئینی ترمیم بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے اس کی منطق پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین میں کی جانے والی اس ترمیم کے بعد وفاقی حکومت صرف پالیسی گائیڈ لائن جاری کر سکتی ہے، تاہم قانونی اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔
شبلی فراز کے اس بیان سے ایک ہفتہ قبل وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم سے وفاق اور صوبوں کے درمیان انتظامی معاملات میں ایسی خامیوں کی نشاندہی ہوئی ہے جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومتی وزراء اور پارٹی قائدین کی جانب سے 2010 میں کی گئی اس اہم آئینی ترمیم کی مخالفت میں بیان دیا گیا ہو۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے اٹھارویں آئینی ترمیم میں کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی مخالفت سامنے آئی ہے۔ بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی نے اسے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے اور آئین و قانون کی پامالی سے تشبیہ دی ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کیا ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بحث مباحثے کے بعد 19 اپریل 2010 کو پاکستان کی پارلیمان نے دو تہائی اکثریت سے ملک کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کی۔ جس کے ذریعے 1973 کے آئین کی 102 شقوں میں رد و بدل کیا گیا اور وہ تبدیلیاں کچھ اس طرح ہیں:
؎ صدر مملکت کے اختیارات کو کم کیا گیا، اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار صدر سے لے لیا گیا۔ اسی طرح کئی دیگر اختیارات صدر سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو منتقل کیے گئے۔
؎ ہنگامی صورتِ حال کے نفاذ کا اختیار صدر سے لے کر صوبائی اسمبلیوں کو دیا گیا۔
؎ آئین کو توڑنے کے ساتھ اسے معطل رکھنے کو بھی سنگین غداری سے تعبیر کیا گیا اور اسے ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا۔
؎ صوبائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے آئین کے کئی آرٹیکلز میں رد و بدل کیا گیا، بجلی کی پیداوار صوبائی اختیار میں دی گئی۔
؎ صوبوں اور وفاق کے درمیان موجود کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کر کے مرکز کے دائرۂ کار میں آنے والے کئی قانونی اختیارات کو صوبوں کو منتقل کیا گیا۔
؎ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے طریقۂ کار میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمان کا کردار بھی شامل کیا گیا۔
؎ صوبوں کو فوجداری اور تعزیرات کے قوانین میں ترمیم کا اختیار دیا گیا۔
؎ پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم لازمی اور اس کی مفت فراہمی کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی گئی۔
؎ سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ غیر جانب دارانہ ٹرائل کو ملزم کا بنیادی حق کا درجہ دیا گیا۔
؎ فوجی سربراہان کی تقرری میں وزیرِ اعظم کی مشاورت ضروری قرار دی گئی۔
؎ وزیرِ اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے تیسری مرتبہ منتخب ہونے کی پابندی کا خاتمہ کیا گیا۔
؎ یہ اصول طے کیا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا۔
اٹھارویں ترمیم سے کیا مسائل پیدا ہوئے؟
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں سیاسیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری میں تین سیاسی جماعتوں کا اہم کردار تھا، جن میں اُس وقت مرکز میں برسرِ اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی، حکومتی اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی اور مرکز میں اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) شامل تھیں۔
اُن کے بقول مذکورہ تینوں جماعتوں نے اس ترمیم کے ذریعے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کو اپنے لیے تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کی راہ ہموار کرانی تھی، عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے ووٹر سے کیا گیا وہ وعدہ نبھانا تھا جس کے تحت صوبے کا نام سرحد سے تبدیل کر کے پختونخوا رکھا گیا جب کہ پیپلز پارٹی کے لیے صوبوں کو اختیارات زیادہ ملنا اہم تھا کیوں کہ سندھ ان کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔
رسول بخش رئیس کے مطابق اس ترمیم کے ذریعے کچھ ایسے اختیارات بھی صوبوں کو دیے گئے جو ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی اکائیوں (صوبوں یا ریاستوں) کو حاصل نہیں جیسا کہ تعلیمی پالیسی لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ مالیات کا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ صوبوں کو مالی اختیارات اس قدر زیادہ تفویض کر دیے گئے کہ وہ اسے ہینڈل ہی نہیں کر پا رہے۔ جب کہ کرپشن اس معاملے میں دوسرا بڑا مسئلہ ہے اور صوبوں سے اس حوالے سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کا خیال ہے کہ صوبوں کے پاس ریونیو اختیارات زیادہ اور وفاق کے پاس کم رہ گئے ہیں۔ وفاق کے خیال میں اس نے بین الاقوامی قرضے بھی واپس کرنے ہیں اور دیگر اخراجات بھی اٹھانے ہیں۔ صحت اور تعلیم کے زیادہ تر اختیارات صوبوں کو منتقل ہوجانے سے وفاق میں مزید بے چینی پائی جاتی ہے۔
رسول بخش رئیس اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ مقتدر قوتوں کو صوبائی خود مختاری سے کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ایسے قانون موجود ہیں جن کے تحت وفاقی قوانین کو بہرحال صوبائی قوانین اور فیصلوں پر فوقیت حاصل ہے۔
اُن کے خیال میں اختیارات کا نچلی سطح پر ارتکاز ہوا نہیں بلکہ صوبے طاقت کے نئے مراکز بن گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے کراچی، حیدرآباد اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں شہری بلدیاتی حکومتیں غیر فعال اور بے اختیار ہیں کیونکہ ان کے فنڈز صوبے کنٹرول کر رہے ہیں۔
رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ وہ اٹھارویں ترمیم میں کوئی تبدیلی ہوتے نہیں دیکھ رہے، کیوں کہ تحریک انصاف کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔
اُن کے بقول اٹھارویں ترمیم پر فی الحال بحث ہو رہی ہے لیکن ہو سکتا ہے تعلیم اور صحت کے معاملات پر صوبوں اور وفاق میں کوئی اتفاق ہو جائے مگر مالیات کے بارے میں اتفاق ہونا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
اس سوال پر کہ کیا کوئی درمیانی راستہ نکالا جاسکتا ہے؟ رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے جیسا کہ صحت کے بعض اداروں کے بارے میں سپریم کورٹ کی رولنگ آئی ہے کہ صحت کی فراہمی صرف صوبوں کا اختیار نہیں بلکہ وفاق کا بھی کام ہے۔
ترمیم کو منسوخ کرنے کے مخالفین کے کیا دلائل ہیں؟
اٹھارویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ اس ترمیم کے حق میں بھی دلائل کا انبار موجود ہے۔ جہاں اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما اس ترمیم کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں وہیں کئی چوٹی کے قانون دان بھی اس کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جاوید عباسی کا کہنا ہے کہ ترمیم کے بعد کوئی ترمیم، ترمیم نہیں رہتی بلکہ وہ آئین کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس کے ذریعے آئین کے 100 سے زائد آرٹیکلز میں رد و بدل کیا گیا، اسی لیے اگر آج کوئی اٹھارویں ترمیم کے خلاف بات کرتا ہے تو درحقیقت وہ آئینِ پاکستان کے خلاف بات کر رہا ہے۔
جاوید عباسی کہتے ہیں جو آئین کے خلاف بات کرے گا وہ قانون کی نظر میں درحقیقت آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مجرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت یا کسی رکن پارلیمان کو آئین کی کسی شق میں کوئی ترمیم کرانی ہے تو اس کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کا ایک قانونی طریقۂ کار موجود ہے۔ اس پر تو بات کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے اپوزیشن جماعتیں بات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
اُن کے خیال میں اٹھارویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی باتیں کرنے والے آئین توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
سینیٹر جاوید عباسی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت بعض سیاسی جماعتوں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ اس پر کھل کر بحث ہوئی تھی اور اس کی منظوری اس وقت کی سیاسی جماعتوں کی بہرحال ایک بہت بڑی فتح تھی۔
سینیٹر جاوید عباسی نے مزید کہا کہ اگر حکومت کے پاس کسی قانون کو مزید بہتر کرنے کی کوئی تجویز ہے تو وہ بتائے۔ تمام جماعتیں اس پر غور و فکر کرسکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومتی اراکین ان شقوں کی نشاندہی کریں جس سے ان کے خیال میں امور مملکت چلانے میں دشواری کا سامنا ہے۔
دوسری جانب سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور آئینی ماہر بیرسٹر ضمیر گھمرو کے مطابق اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے معاملے پر یہ بحث کی جاسکتی ہے کہ کون سے اختیارات صوبوں کے پاس رہنے چاہییں اور کون سے ایسے اختیارات ہیں جو ضلعی حکومتوں کو منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں جو اختیارات صوبوں کو دس سال پہلے دیے گئے وہی واپس لے لیے جائیں۔
اُن کے مطابق تعلیم، صحت، قانون کی حکمرانی، ذراعت، صنعتیں، بلدیات، سماجی تحفظ، غذا، معدنیات اور اس طرح کے جو بھی سیکٹرز ہیں وہ آج سے نہیں بلکہ 1947 بلکہ 1935 کے آل انڈیا ایکٹ کے تحت صوبوں کے ماتحت ہیں۔
بیرسٹر ضمیر گھمرو کا کہنا ہے کہ "اٹھارویں آئینی ترمیم پر اب بھی تیس سے چالیس فی صد ہی عمل ہو سکا ہے۔ بعض پریشر گروپس اس ترمیم پر من و عن عمل کرنے سے کترا رہے ہیں اور ہر چند ماہ کے بعد اس طرح کے شوشے چھوڑ کر ایسی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں جس سے عدالتوں اور دیگر اداروں کو یہ تاثر جائے کہ اس سے وفاق شاید کمزور ہوا ہے۔"