نائیجیریا کی سکیورٹی فورسز نے شمال مشرقی شہر میڈوگوری کی ایک مقبول مارکیٹ میں پیر کو مسلح افراد کے حملے کے بعد سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے ہیں۔ خیال ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق انتہاپسند اسلامی فرقے بوکو حرام سے تھا۔
نائیجیریا کی فوج کا کہنا ہے کہ اس حملے میں جب دونوں طرف سے گولیاں چلیں، تو اس نے آٹھ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ تاہم منگل کے روز بوکو حرام نے کہا کہ اس کا کوئی رکن ہلاک نہیں ہوا ہے۔
بوکو حرام کے ترجمان نے جنہیں ابوقوا کہا جاتا ہے، فون پر صحافیوں کو بتایا کہ مارکیٹ پر یہ حملہ تاجروں کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر کیا گیا تھا کیوں کہ انھوں نے گزشتہ ہفتے بوکو حرام کے ایک مشتبہ رکن کو حکام کے حوالے کر دیا تھا۔
طبی ذرائع اور تاجروں نے کہا کہ فائرنگ کے تبادلے میں 30 سویلین باشندے بھی ہلاک ہوگئے، اگرچہ نائیجیریا کی فوج نے سویلین ہلاکتوں سے انکار کیا ہے۔
مارکیٹ کے ایک تاجر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں نے ان پر دھماکہ خیز مواد اور خودکار اسلحہ سے حملہ کیا کیوں کہ گزشتہ جمعرات کو مارکیٹ کے دوکانداروں نے ان کے ایک رکن کو پکڑوانے میں مدد دی تھی۔
بہت سے بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور اب وہ آئندہ سکیورٹی فورسز کی مدد نہیں کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حالات کو ٹھیک کرے کیوں کہ اب سویلین باشندے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف ابوجا میں عمرانیات کے سینیئر لیکچرر، ابوبکرعمر قاری کہتے ہیں کہ اب تک بوکو حرام گروپ اپنے مخالفین کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
’’فوری اثر یہ ہوا ہے کہ میڈوگوری میں اور دوسرے مقامات پر لوگ اب بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئے ہیں اور وہ اس فرقے کی سرگرمیوں کے بارے میں پولیس کو اطلاع دینے میں انتہائی محتاط ہیں کیوں کہ انہیں بڑی آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اور سکیورٹی فورسز ان کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کر سکتیں۔ مخبر اور دوسرے اچھے لوگ بھی جو اس فرقے کی سرگرمیوں سے تنگ آ چکے ہیں بالکل بے بس ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ اس واقعے سے مقامی لوگوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان بد اعتمادی میں بھی اور اضافہ ہو گیا ہے۔
’’میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ان کی ٹریننگ کی خامی ہے یا ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کرتے۔ لیکن جب کبھی نائیجیریا کی سکیورٹی فورسز کا مسلح گروپوں سے تصادم ہوتا ہے، وہ بس اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کر دیتی ہیں‘‘۔
نائیجیریا کے ایک ریسرچر ایرک گیڈچکس ہیومن رائٹس واچ کے لیے بوکوحرام کے حملوں کے رد عمل میں سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان میں ان بستیوں پر حملہ اور گھروں کو جلایا جانا شامل ہے جن پر بوکو حرام کے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا شبہ ہوتا ہے۔
’’شہری بڑی مشکل میں ہیں کیوں کہ انھیں دونوں طرف سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بوکو حرام کی طرف سے اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے بھی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نائجیریا کی سکیورٹی فورسز کو ان حملوں کے جواب میں انسانی حقوق کی پوری طرح پابندی کرنی چاہیئے کیوں کہ اس قسم کے گروپ، مشتبہ ارکان کے خلاف سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کو نئے لوگ بھرتی کرنے اور مزید حملوں کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سکیورٹی سروسز کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کمیونٹیوں کا تعاون حاصل ہو‘‘۔
بوکو حرام کی طرف سے ملک کے شمال میں تقریباً روزانہ فوج اور پولیس کے ٹھکانوں پر، نیز چرچوں اور مسجدوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ابو میں مرکزی حکومت سکیورٹی کے خطرے کو کنٹرول کرنے کی جدو جہد کرتی رہی ہے۔
حوسہ زبان میں اس گروپ کے نام کا مطلب ہے، مغربی تعلیم گناہ ہے۔ یہ گروپ مملکت کے اختیار کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ شمالی نائجیریا میں شریعت یا اسلامی قانون پر زیادہ سختی سے عمل کیا جائے۔
ہومین رائٹس واچ کے ایرک گیڈچکس کہتے ہیں کہ کسی حد تک بوکو حرام کی سرگرمیاں، اس کرپشن اور دیدہ دلیری کا ردِ عمل ہیں جو سکیورٹی فورسز اور حکومت کے اعلیٰ طبقے میں عام ہے۔
بہت سے لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ تشدد کے خاتمے کے لیے فوجی طاقت سے نہیں، بلکہ بات چیت سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ تاہم بوکو حرام نے منگل کے روز کہا کہ جب تک اس کے تمام گرفتار شدہ ارکان غیر مشروط طور پر رہا نہیں کیے جاتے مصالحت کے لیے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔