نائجیریا میں سرگرم مسلم شدت پسند تنظیم 'بوکو حرام' گزشتہ تین برسوں کے دوران میں ملک کے شمالی اور وسطی علاقوں میں کئی ہلاکت خیز حملے کرچکی ہے
واشنگٹن —
امریکہ میں بننے والی ایک توہین آمیز فلم کے خلاف مسلم دنیا میں ہونے والے پرتشدد احتجاجی مظاہروں اور امریکی سفارت خانوں پر حملوں کے پیشِ نظر نائجیریا کی حکومت نے بھی تمام غیر ملکی سفارت خانوں کے حفاظتی انتظامات سخت کردیے ہیں۔
نائجیریا کی پولیس کے سربراہ محمد ابو بکر نے جمعرات کو تمام پولیس کمانڈرز کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ ملک میں موجود تمام سفارت خانوں اورغیر ملکی مشنز کی عمارات سمیت تمام دیگر حساس تنصیبات کے گرد سیکیورٹی کے انتظامات کو یقینی بنائیں۔
واضح رہے کہ نائجیریا میں سرگرم مسلم شدت پسند تنظیم 'بوکو حرام' گزشتہ تین برسوں کے دوران میں ملک کے شمالی اور وسطی علاقوں میں کئی ہلاکت خیز حملے کرچکی ہے جن میں گزشتہ برس اگست میں دارالحکومت ابوجا میں واقع اقوامِ متحدہ کے دفتر پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔
قبل ازیں ابوجا میں واقع امریکی سفارت خانے نے بدھ کو خبردار کیا تھا کہ شدت پسند نائجیریا میں موجود امریکی شہریوں اور مغربی باشندوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بوکو حرام سے منسلک شدت پسندوں نے نائیجریا میں کام کرنےو الے 'وائس آف امریکہ' کے ملازمین پر حملوں کی دھمکی بھی دی تھی۔
مذکورہ تنظیم اب تک 30 سے زائد موبائل فون ٹاورز کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے اور اس کا موقف ہے کہ موبائل فون کمپنیاں اس کے ارکان کا سراغ لگانے اور ان کی گرفتاری میں حکام کی مدد کر رہی ہیں۔
نائجیریا کی پولیس کے سربراہ محمد ابو بکر نے جمعرات کو تمام پولیس کمانڈرز کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ ملک میں موجود تمام سفارت خانوں اورغیر ملکی مشنز کی عمارات سمیت تمام دیگر حساس تنصیبات کے گرد سیکیورٹی کے انتظامات کو یقینی بنائیں۔
واضح رہے کہ نائجیریا میں سرگرم مسلم شدت پسند تنظیم 'بوکو حرام' گزشتہ تین برسوں کے دوران میں ملک کے شمالی اور وسطی علاقوں میں کئی ہلاکت خیز حملے کرچکی ہے جن میں گزشتہ برس اگست میں دارالحکومت ابوجا میں واقع اقوامِ متحدہ کے دفتر پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔
قبل ازیں ابوجا میں واقع امریکی سفارت خانے نے بدھ کو خبردار کیا تھا کہ شدت پسند نائجیریا میں موجود امریکی شہریوں اور مغربی باشندوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بوکو حرام سے منسلک شدت پسندوں نے نائیجریا میں کام کرنےو الے 'وائس آف امریکہ' کے ملازمین پر حملوں کی دھمکی بھی دی تھی۔
مذکورہ تنظیم اب تک 30 سے زائد موبائل فون ٹاورز کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے اور اس کا موقف ہے کہ موبائل فون کمپنیاں اس کے ارکان کا سراغ لگانے اور ان کی گرفتاری میں حکام کی مدد کر رہی ہیں۔