افریقہ کے ملک نائیجیریا کی شمال وسطی ریاست نائیجر کے گورنر کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں نے ایک ہفتہ قبل اغوا کیے گئے 42 افراد کو، جن میں 27 طلبہ بھی شامل ہیں، کو رہا کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق گزشتہ ہفتے 27 طلبہ سمیت اسکول کے عملے کے تین ارکان اور ان کے اہل خانہ کے 12 افراد کو مسلح افراد نے نائیجر میں قائم سرکاری اسکول سے دوپہر دو بجے کے قریب اغوا کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق جن طلبہ کو اغوا کیا گیا تھا ان کی عمریں 15 سے 18 سال کے درمیان تھیں۔
نائیجر کے گورنر ابو بکر ثانی بیلو کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ مغوی طلبہ، اہلکاروں اور ان خاندان کے افراد بازیاب ہو گئے ہیں۔
ان کے بقول بازیاب ہونے والے افراد ریاستی حکومت کی حفاظت ہیں۔
دوسری جانب شمالی نائیجیریا کی ریاست زمفارا سے جمعے کو اغوا کی جانے 300 سے زائد طالبات کو بازیاب کرانے کے لیے کیے گئے پولیس آپریشن میں کامیابی نہیں مل سکی۔ جب کہ پولیس مسلح افراد کے ٹھکانے کا پتا لگانے میں ناکام رہی ہے۔
جمعے کو مسلح افراد نے سرکاری سکینڈری اسکول سے 300 سے زائد طالبات کو اغوا کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق طالبات کو اغوا کیے جانے کے لگ بھگ 24 گھنٹوں کے بعد ریاست زمفارا میں آپریشن کیا گیا جس کے گورنر نے واقعے کے بعد فوری طور پر تمام اسکول بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
زمفارا کے انفارمیشن کمشنر سلیمان تناؤ کے مطابق اغوا کاروں نے دوپہر ایک بجے کے قریب فائرنگ کرتے ہوئے اسکول پر حملہ کیا تھا۔
نائیجیریا کے شمال مغربی علاقے میں لگ بھگ ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والا یہ دوسرا واقع ہے جس میں عسکریت پسندوں یا جرائم پیشہ گروہوں نے اسکول کو نشانہ بنایا ہے۔
زمفارا پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے طالبات کی تلاش اور ریسکیو کا آپریشن فوج کی معاونت سے شروع کیا ہے۔
پولیس کمشنر ابوتو یارو کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ان کے پاس معلومات تھیں کہ اغوا کار قریب واقع جنگل میں چھپے ہوئے ہیں۔ وہ محتاظ رہتے ہوئے ان کا پتا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اغوا ہونے والی طالبات ابھی تک لاپتا ہیں۔ تاہم اغوا ہونے والی ایک لڑکی کے والد محمد عثمان جنگیبی کا کہنا تھا کہ سات لڑکیاں اغوا کاروں کے چنگل سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔
سلیمان تناؤ کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس دستیاب معلومات کے مطابق اغوا کار لڑکیوں کو اغوا کرنے کے لیے گاڑیاں لائے تھے۔ جب کہ بعض اغوا کار کچھ لڑکیوں کو پیدل بھی ساتھ لے گئے تھے۔
جمعے کی شب تک کسی بھی گروہ نے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔
واضح رہے کہ اغوا کی وارداتیں شدت پسند گروہ ‘بوکو حرام’ اور ‘داعش’ کرتے رہے ہیں۔ تاہم یہ طریقۂ کار اب دیگر عسکریت پسند گروہ اختیار کر رہے ہیں جن کے مقاصد ابھی تک واضح نہیں ہیں۔
نائیجیریا کے شمالی علاقوں میں ہونے والی ایسی وارداتوں سے لوگوں میں غصہ بڑھ رہا ہے جب کہ گزشتہ برس دسمبر کے بعد سے اب تک پیش آنے والا یہ تیسرا واقع ہے۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے ان واقعات کی وجہ سے صدر محمد بوہاری پر سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جو کہ ایک ریٹائرڈ آرمی جنرل اور سابق فوجی آمر بھی رہے ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق ایک سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت نے اغوا کاروں کو بچوں کی رہائی کے بدلے تاوان بھی ادا کیا ہے۔
دوسری طرف حکومت نے تاوان ادا کیے جانے سے متعلق اطلاعات کو رد کیا ہے۔
صدر محمد بوہاری نے جمعے کو کہا تھا کہ وہ اغوا کاروں کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے۔
ایک بیان میں صدر نے حکام سے کہا تھا کہ وہ اغوا کاروں کو رقم یا گاڑیاں نہ دیں۔