کراچی کے ایم اے جناح روڈ کے ایک کونے پر واقع ’نشاط سنیما‘ نے بھی اسی سال جنم لیا تھا جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ یوں، اب سنیما کی عمر بھی اتنی ہی ہے جتنی پاکستان کی عمر۔
کہتے ہیں کوئی’انجانا بزرگ‘ بھی اس عمر کو پہنچ جائے تو لوگ اتنی ہی عزت و تعظیم کرتے ہیں، جتنی وہ اپنے بزرگوں کو دیتے ہیں۔ لیکن، نشاط کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔۔۔۔
نہ کسی نے اس کے’ قومی ورثہ‘ ہونے کا خیال کیا نہ تاریخی اہمیت کو ہی گردانہ۔۔ بس ایک شور اٹھا۔۔ لوگ نہ جانے کہاں سے آناًفاناً آئے اور لمحوں میں یہ عمارت راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ بے قصوری پر بھی اسے ایسی کڑی سزا ملی کہ پوری عمارت ہی سدا کے لئے گنگ ہوکر رہ گئی۔
واقعے کے کچھ دنوں بعد ہی سنیما کے ماتھے پہ جہاں کبھی بڑے بڑے فلمی پوسٹر سجا کرتے تھے وہاں جلی حروف میں ایک عبارت لکھ دی گئی ۔۔’اس بھیانک تباہی کی ذمے دار کون اٹھائے گا؟‘
یہ عبارت عرصے تک سڑک سے گزرنے والے ہر خاص و عام آدمی سے یہ سوال کرتی رہی۔ لیکن، شاید کوئی بھی آگے نہیں آیا، یہاں تک کہ عبارت کو خود بھی شرمندگی ہونے لگی اور ایک دن تیز ہوا کا بہانہ بناکر اس عبارت نے خود کو تار تار کرلیا۔
عبارت کے ہٹ جانے کے بعد یوں لگتا ہے جیسے اس ’عوامی نشاط‘ کو کسی نے سرعام بے لباس کردیا ہے۔۔کالی کالی دیواریں ۔۔اجڑا ہوا ہال۔۔ویرانی کے ڈیرے۔۔بے نام و ننگ ۔۔اور قبرستان کی سی خاموشی اب اس کامقدر ہے۔
گزشتہ ہفتے کا اخبار فلموں کے تمام شوقین افراد کے لئے ایک بری خبر اپنے لایا تھا۔ ایک اشتہار میں لکھا تھا ۔۔نشاط برائے فروخت۔۔۔سنیما کے ساتھ ساتھ جوان ہونے والوں کی سنہری یادوں میں ’نشاط‘ رچا بسا ہے اس لئے یہ خبر ان کے لئے کسی اپنے سے بچھڑے جانے کے غم جتنی ہی اندوہناک تھی۔
جس روز نشاط نذر آتش ہوا اس روز ستمبر کا 21واں دن اور سال 2012ء تھا جب شہر کے مختلف علاقوں میں پھوٹنے والے ہنگاموں میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں بہت سارے ہوٹلز، دکانیں اور سنیماہالز تک جلادیئے گئے۔ ان میں سے کچھ سنیما تو تھوڑے سے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوگئے۔ لیکن، نشاط کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے سنیما کے مالک ندیم مانڈوی والا کہتے ہیں:
”21ستمبر 2012ء کے واقعے میں چھ سنیماگھر نذرآتش ہوئے تھے ’نشاط‘،’ کیپری‘،’ پرنس‘ ،’ بمبینو ‘،’گلستان‘ اور ’نگار‘۔ان میں نشاط اور پرنس دو ایسے سنیما ہالز تھے جو مکمل طور پر جل کر خاکستر ہوگئے جبکہ باقی کو اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا کہ ان کی بحالی مشکل ہوتی لہذا وہ کچھ ماہ بعد ہی دوبارہ کھول دیئے گئے لیکن نشاط کو نئے سرے سے بنانے کے لئے کروڑوں روپے درکار تھے۔ لوگ اکثر مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ ندیم صاحب آپ تو سنیما کے دیرینہ اور بہت بڑے پروموٹرز رہے ہیں پھر اسے دوبارہ تعمیر کرنے سے کیوں گریزاں ہیں ، تو میں یہی جواب دیتا ہوں کہ پچھلے دس ، بارہ سال سے یہ چل ہی اس وجہ سے رہا تھا کہ وہ ہمارے لئے بھی ایک سنہری یاد ہے۔“
تعمیر کا 68 واں سال
سنہری یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ندیم مانڈوی والا مزید کہتے ہیں ’نشاط تعمیر تو 1947ء میں ہی ہوگیا تھا۔ لیکن اسے میرے والد نے اپنی سرپرستی میں 1963ء میں لیا تھا۔ اس کی تعمیر کا سہرا کانڈاوالا صاحب کے سر ہے۔ یہ ان کی پراپرٹی تھی۔ ان کے پاس دو پلاٹ تھے ان میں سے ایک پرنشاط تعمیر ہوا جبکہ دوسرے پر ایک بلڈنگ ’کانڈاوالا“ کے نام سے ہی تعمیر کی گئی جو سنیما کے بغل میں آج بھی قائم ہے اور جس میں اس وقت بینک قائم ہیں۔’نشاط‘ والا پلاٹ سنیماہال کے نام پر ہی الاٹ ہوا تھا جبکہ کانڈاوالا صاحب کو سنیما میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے یہ پلاٹ میرے والد کو لیز پر مل گیا۔‘
سنیما کی تاریخی حیثیت
”نشاط اپنے زمانے کا بڑا اور مشہورترین سنیماتھا۔ ابتداء میں اس کی 550نشسیں تھیں جبکہ آخری شوچلنے تک اس میں نشستوں کی تعداد 832تھی۔ اسکرین کا سائز 35ایم ایم تھا، کیوں کہ وہ سنیما اسکوپ کا دور نہیں تھا، یہ دور بعد میں آیا۔ 1972 ء میں والد صاحب نے اس میں ایک بڑی اسکرین لگوائی تھی، جس کی وجہ سے لوگوں کو بڑی اسکرین یا سینما اسکوپ اسکرین پر فلم دیکھنے کو ملی۔“
اردو، انگریزی اور’ہندی‘ فلموں کا ’مرکز‘
”بہت ساری فلمیں ایسی ہیں جنہوں نے نشاط میں بہت زیادہ بزنس کیا ۔اردو کی کئی فلموں نے یہاں سلورجوبلی منائی جبکہ آخری فلم رنبیر کپور کی ’برفی‘ تھی۔ سنہ 72تک یہاں اردو فلمیں چلتی رہیں پھر جب سینما اسکوپ انگریزی فلمیں بننے لگیں تو نشاط انگریزی فلموں کا مرکز بن گیا کیوں کہ اسی دور میں لوگوں کا اردو فلموں کی طرف رجحان کم اور انگریزی کی طرف زیادہ ہوگیا۔ پرنس، کیپری اور نشاط زیادہ تر انگریزی فلمیں ہی چلایا کرتے تھے۔ انگریزی فلموں نے ہی اس دور میں زیادہ بزنس بھی کیا۔“
نشاط میں فلم دیکھنے والی مشہور شخصیات
نشاط اور بڑی شخصیات کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اس کا افتتاح ہی محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا۔اسی سنیماہال میں انہوں نے فلم ”چراغ جلتا رہا“ دیکھی جو محمد علی اور زیبا کی پہلی فلم تھی۔ شروع سے آخر تک بے شمار فنکاروں اور سیاست دانوں نے یہاں آکر فلمیں دیکھیں، ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔“
فلموں کے زوال کی وجہ
”جہاں سے میں نے سنیما ہال کا بار اپنے کندھوں پر سنبھالا وہیں سے فلم کا بزنس زوال کا شکار ہوا۔ یہ 80ء کا عشرہ تھا ، نئے نئے چیلنجز سر ابھار نے لگے تھے ۔ وی سی آر کی اجارہ داری قائم ہوچکی تھی ۔ اسی کی بدولت جن بھارتی فلموں پر 1965ء سے پاکستان آنے پر پابندی لگی ہوئی تھی وہ اچانک ختم ہوگئی ۔ لوگوں کو اپنی پسند سے فلمیں دیکھنے کی آزادی ملی ۔ پانچ سال بعد ہی وی ایچ ایس ٹیکنک آگئی، وی سی آر سستے ہوئے تو گھرگھر دیکھے جانے لگے ۔ محلوں میں جگہ جگہ ویڈیو شاپس کھل گئیں، بڑی بڑی مارکیٹس وجود میں آگئیں ۔ ان سب چیزوں کا براہ راست اثر سنیما انڈسٹری پر پڑا۔ لوگوں نے سنیماہالز کا رخ کرنا بندکردیا کیوں کہ اب انہیں بیڈ روم میں ہی اپنی پسند کی فلمیں دیکھنے کو ملنے لگیں ۔ “
سنیماانڈسٹری پر ان تابڑ توڑ حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میں نے نشاط میں ہی نئے نئے تجربات کرنا شروع کردیئے۔ پہلے تین شوز چلاکرتے تھے جن کی تعداد میں نے بڑھا کر بتدریج پہلے چار، پھر پانچ اور آخر میں چھ کردی۔ پھر مزید نئی ایجادات ہوگئیں تو انہیں بھی سب سے پہلے’نشاط‘ نے ہی اپنایا۔ نشاط کو سب سے پہلا اسٹیریو سنیما بنایا، پہلا ڈیجیٹل ساوٴنڈ سسٹم بھی یہیں نصب کرایا ۔ یہ تجربات کامیاب رہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نشاط کی دیکھا دیکھی دوسرے سنیما مالکان نے بھی اس ٹیکنک کو ہمارے بعد اپنایا۔ مگر چونکہ ہماری فلم انڈسٹری کو مسلسل 25سالوں تک دوسرے ممالک کی فلم انڈسٹری سے زبردست مقابلے کا سامنا رہا لہذا ہماری فلمیں ان کے سامنے ٹک نہیں پائیں۔ وی سی آر سے وی ایچ ایس ،پھر سی ڈی، ڈی وی ڈی، سیٹیلائٹ، کیبل اور انٹرنیٹ آگیا جن کی معاشرے میں گنجائش بڑھتی چلی گئی۔۔ اور آج بھی مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن ہماری فلمیں آگے نہیں بڑھ سکیں۔“
”سنیماہال پر کچھ عرصے تک یہ عبارت لکھی رہی کہ ’ اس بھیانک تباہی کی ذمے دار ی کون اٹھائے گا؟ اس کا مقصد کیا تھا؟اور یہ کن لوگوں کے لئے تھا؟“
اس سوال پر ندیم مانڈوی والا نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا” اس کا مقصد وہی تھا جس کے لئے آپ انٹرویو کر رہے ہیں۔ میں نے اب تک بہت سے انٹرویو دیئے لیکن کسی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا، وی او اے پہلا ادارہ ہے جس نے یہ پوچھا ہے۔ یہ پیغام ہر آدمی کے لئے تھا اوراس کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ کو اس عمل پر تشویش ہے تو کچھ کریں ورنہ اسے منہدم کرنے سے مجھے نہ روکیں۔ نشاطہ ہماری پراپرٹی ضرور ہے لیکن وہ ایک پبلک پلیس بھی تو تھا ۔ نشاط اس شہر کے ہر شخص سے جڑا رہا ۔۔کہیں خوابوں میں کہیں یادوں میں ۔۔اس لئے توٹنے پر درد تو ہوگا ہی۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اسے ایک اچھی یاد سمجھ کر بھلادینا چاہئے۔ جب انسان مرجاتا ہے تو چیزوں کی کیا حیثیت ہے۔ یہی قانون قدرت ہے۔“
کیا کچھ لوگ، کچھ ادارے یا حکومت سامنے آئی اسے دوبارہ تعمیر میں مدد ینے؟
”دیکھئے درد سب کے پاس ہے اور میں لوگوں کے جذبات کی قدر بھی کرتا ہوں لیکن یہاں مسائل بہت زیادہ ہیں۔ میں نے کبھی گورنمنٹ کی توجہ کے لئے شور بھی نہیں مچایا۔ گورنمنٹ جیسی بھی ہے اچھی ہے یا بری ہے، ہے تو ہماری ہی ۔ ان کے پاس پہلے ہی مسائل کا انبار ہے ایسے میں ، میں اپنا گانا شروع کر دوں، یہ ٹھیک نہیں لگتا۔ جو ہونا تھا ہوگیا ۔۔چلتے رہنا اور آگے بڑھتے رہنا ہی زندگی ہے۔“
کتنے لوگوں نے اس کی خریداری میں دلچسپی دکھائی ہے؟
اخبار میں اشتہار شائع ہوچکا ہے، پروسیس چل رہا ہے لیکن اگر سنیما نہ بکا تب بھی اسے منہدم کرکے اس پر کوئی عمارت بنالیں گے یا کوئی اور پروجیکٹ شروع کردیں گے۔ مجھے یہ بات معلوم تھی کہ نشاط کے ساتھ لوگوں کی وابستگی بہت زیادہ ہے اسی لئے اشتہار دیکھ کر اس حوالے سے زیادہ شور اٹھا ہے۔ کل اگر سندھ اسمبلی ایم اے جناح روڈ کو ریڈ زون قرار دے دے تو میں یہ سینما خود بنا دوں گا مجھے کسی کی ضرورت نہیں لیکن اگر تحفظ ہی نہیں ملتا تو میں یہ غلطی کیوں دہراوٴں۔کیوں کہ احتجاج، جلسے، جلوس اور ریلیاں تو اب بھی جاری ہیں اور آگے بھی جاری رہیں گی۔ ایک دفعہ کے ہی لوگ اب تک نہیں پکڑے گئے جبکہ اب تو دوسروں کے بھی حوصلے بڑھ گئے ہوں گے کہ پچھلے والوں کے خلاف کچھ نہیں ہوسکا تو ہمارے خلاف کیا ہوگا۔ حالانکہ ہر چیز سی سی ٹی وی پر موجود ہے۔