کراچی میں پہلے تھری ڈی ڈیجیٹل سنیماہال کا افتتاح ہوگیا ہے۔ شہر قائد میں جہاں تقریباً تمام بڑے بڑے اور نامی گرامی سنیماہالز اب تقریباً منہدم ہوگئے ہیں اور کراچی کی نئی جنریشن نے تو گویا سنیما ہالز کے مزے کبھی لوٹے ہی نہیں، نہ انہیں اس کی توقع تھی کہ وہ کبھی ترقی یافتہ ملکوں جیسے سینماہالز کا کراچی میں نظارہ کرسکیں گے، وہیں صدر کے علاقے میں پہلا تھری ڈی ڈیجیٹل سنیما بارش کے پہلے قطرے کی طرح خوشگوار ہے۔
پھٹی ٹوٹی نشستیں جن میں اکثر کیلیں بھی نکلی ہوا کرتی تھیں، حبس زدہ ماحول، گندگی، بدبو، خوانچہ فروشوں کا شور، غیر سنجیدہ ناظرین، غیر اخلاقی ماحول ۔۔ یہ سب وہ وجوہات تھیں جن کے سبب کراچی ہی نہیں پورے ملک کے سنیما شائقین نے سنیماہالز جاکر فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں تھیں ۔ ورنہ ایک وقت تھا کہ شہر بھر کے لوگ پہلے دن پہلے شو میں نئی فلم دیکھنے کے لئے بے چین رہتے تھے۔ اس دیوانگی شوق کی خاطر انہیں ٹکٹ بھی بلیک میں یعنی مہنگے داموں خریدنا پڑتا تھا اور لائنیں لگاکراور دھکے کھاکر بھی بعض اوقات ٹکٹ نہیں ملاکرتی تھی۔ بسا اوقات تو ٹکٹ کئی ہفتے ایڈوانس میں بک کرانا پڑتی تھی۔
ملک میں سنیما انڈسٹری کی تباہی کی ذمے دار جہاں کچھ اور بھی وجوہات تھیں وہیں سیکیورٹی بھی ایک مسئلہ تھی۔سنیما ہالز کی بدترصورتحال کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ فلمیں ناکام ہونے لگیں، رفتہ رفتہ سنیما ہالز ویران ہونے لگے اور دیکھتے دیکھتے انڈسٹری لڑکھڑانے لگی۔ مگرجدید ترین ایٹریم تھری ڈی سنیما کو دیکھتے ہوئے اب ایک دفعہ پھر یہ امید ہوچلی ہے کہ ملک میں سنیما کا کاروبار پھر سے چمک اٹھے گا۔
ایٹریم سنیما صدر میں واقع ایک جدید ترین شاپنگ سینٹرکی تیسری منزل پر کھولا گیا ہے جہاں نیچے سے اوپر تک جاتے ہوئے سخت سیکیورٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ پھر سنیما ہال کا ماحول نہایت جدید، پرسکون اورمکمل طور پر اس قابل ہے کہ یہاں بے خوف و خطر فیملی کے ساتھ فلم دیکھی جاسکتی ہے۔ فلمی شائقین تفریح کے ساتھ صاف ستھرے ماحول میں ریفریشمنٹ بھی کرسکتے ہیں۔ تھری ڈی ٹیکنالوجی، 35 ایم ایم پروجیکشن اسکرین، ڈولبی ڈیجیٹل ساؤنڈ سسٹم اور گرما گرم پاپ کارن یا ٹھنڈے ٹھنڈے خواب آور ماحول میں چائے، کافی یا کولڈ ڈرنک کے سپس۔۔۔ فلم دیکھنے کا اصل مزا یہی تو ہے۔
سنیما ہال میں شو کے ٹائمنگز، پلازہ ٹی وی اسکرین پر فلم کے ویڈیو کلپس، کمپیوٹرائزڈ بکنگ، نہ لائن لگانے کا جھگڑا نہ دھکم پیل۔۔۔ پھر تھری ڈی گلاسز بھی واپس کرنے کی ضرورت نہیں، آپ انہیں گھر بھی لاسکتے ہیں۔ اور انہیں لگا کر فلم دیکھنے میں جو مزا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ 'اوتار' جیسی تھری ڈی مووی دیکھنے کے لئے اسی طرح کے سینما ہالز کی ضرورت تھی جو اب پوری ہوگئی ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی کراچی میں بھی دبئی اور انڈیا کی طرح سنے پلیکس اور ملٹی سنے پلیکس دیکھنے کو ملیں گے۔
پاکستانی فلم ڈسٹری بیوٹر کمپنی مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے ڈائریکٹرنواب حسن صدیقی کے مطابق اس اقدام سے سنیما انڈسٹری کو فروغ ملے گا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ منصوبے پر خطیر سرمایہ کاری کی گئی ہے مگر انہیں امید ہے کہ یہ رقم کچھ مدت بعد انہیں منافع کے ساتھ واپس مل جائے گی۔
کراچی میں تھری ڈی سینما بنانے کے اصل منصوبہ ساز ندیم مانڈوی والاکا کہنا ہے کہ انہوں نے 1983 میں پہلی تھری ڈی فلم دیکھی تھی اور تب سے ہی انہوں نے یہ کوشش شروع کردی تھی کہ وہ پاکستان میں بھی تھری ڈی سنیما کو متعارف کرائیں گے اور اب بلاخر وہ دن آگیا ہے۔
سنیما کے باقاعدہ افتتاح کے موقع پر وفاقی وزیر ثقافت آفتاب شاہ جیلانی کے علاوہ پاکستان فلم انڈسڑی سے وابستہ بہت سی اہم شخصیات بھی موجود تھیں جن میں سرفہرست تھے اداکار ندیم اور مصطفی قریشی۔ ان دونوں فنکاروں نے میڈیا سے گفتگو میں پاکستان فلم انڈسٹری کی جلد بحالی کی امید ظاہر کی۔