ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض ایکٹویسٹ اور مسلم رہنماؤں نے کہا ہے کہ اگر صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقدامات نہیں کیے تو وہ ملک کے لاکھوں مسلمان ووٹرز کو جو بائیڈن کے لیے ووٹ یا فنڈنگ روکنے کے لیے مہم کا آغاز کریں گے۔
یہ اعلان ڈیمو کریٹک پارٹی کے مسلم حامیوں پر مشتمل نیشنل مسلم ڈیمو کریٹک کونسل کی جانب سے آیا ہے۔ اس کونسل میں مشی گن، اوہائیو، پینسلوینیا جیسی امریکی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی شامل ہیں جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کو سخت انتخابی مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان رہنماؤں نے جنگ بندی کے لیے صدر کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے واشنگٹن ڈی سی کے مقامی وقت کے مطابق منگل کے شام پانچ بجے تک کا وقت دیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بائیڈن کی انتخابی مہم کے منتظمین نے تاحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
مسلم رہنماؤں نے ’2023 سیز فائر الٹی میٹم‘ کے نام سے کھلے خط میں اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم ووٹرز کو فلسطینی عوام پر حملوں کی حمایت کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے یا ان کی تائید کرنے سے روکنے کے لیے مہم چلائیں گے۔
کونسل نے اپنے خط میں صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کی حکومت نے غیر مشروط حمایت، مالی امداد اور اسلحے کی فراہمی ایسے تشدد کے جاری رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جو شہریوں کے جانی نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ ان اقدامات کے باعث آپ پر ماضی میں اعتبار کرنے والے ووٹرز کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی کانگریس کے پہلے مسلم رکن کیتھ ایلیسن اور انڈیانا سے متنخب ہونے والے مسلم رکنِ کانگریس آندرے کارسن اس تنظیم کے بانی شریک سربراہ ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ خط عرب اور مسلم امریکی کمیونٹیز میں صدر بائیڈن کی جانب سے سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی غزہ میں شروع کیے گئے حملوں کی مذمت نہ کرنے پر بڑھتی ہوئی بے چینی اور برہمی کا اشارہ ہے۔
حماس کے اسرائیل پر حملے سے 1400 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ اس کے عسکریت پسندوں نے 239 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
غزہ میں حماس کے زیر کنٹرول صحت کے حکام کے مطابق اسرائیل کے فضائی اور گزشتہ ہفتے شروع کیے گئے زمینی حملوں سے اب تک 8306 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں جن مین 3457 بچے بھی شامل ہیں۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ غزہ پر حملے روکنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکہ کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ موجودہ حالات میں جنگ بندی سے حماس کو فائدہ ہو گا۔
فلسطینی نژاد امریکی قانون ساز رشیدہ طلیب نے پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر 90 سیکنڈ کی ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے۔ اس ویڈیو میں رشیدہ طلیب نے اسرائیل کے حملوں کو فلسطینیوں کی ’نسل کُشی‘ قرار دیتے ہوئے ان کے لیے صدر بائیڈن کی حمایت کی مذمت کی ہے۔
اپنی پوسٹ میں انہوں نے مزید لکھا ہے کہ 2024 میں ہمارا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔
سیکرامینٹو ویلی کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن (کیئر) کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر باسم القرا کا کہنا ہے کہ 2024 کے صدارتی الیکشن میں بائیڈن کے لیے مسلمانوں کے ووٹ انتہائی اہم ہیں کیوں کہ انہوں نے 2020 کے الیکشن میں مشی گن کے 16 الیکٹورل ووٹس صرف 2.6 فی صد کے مارجن سے حاصل کیے تھے۔
منی سوٹا کے مسلمانوں نے، جہاں جو بائیڈن بدھ کو دورہ کرنے والے ہیں، گزشتہ ہفتے جنگ بندی کے لیے ایسا ہی ایک الٹی میٹم جاری کیا تھا جس کی مہلت منگل کی دوپہر کو ختم ہوگی۔ منی سوٹا کے مسلم کمیونٹی نے بدھ کو صدر بائیڈن کی آمد پر احتجاج کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
صدر بائیڈن نے گزشتہ جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں چند مسلم رہنماؤں کو مدعو کیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار کا کہنا تھا کہ بائیڈن حکومت کے حکام عرب اور مسلم کمیونٹی سے رابطے جاری رکھیں گے جنہیں مشرقِ وسطیٰ کے بحران سے متعلق صدر بائیڈن کے طرزِ عمل پر تحفظات ہیں۔
اگرچہ صدر بائیڈن خود کو ’صیہونی‘ قرار دیتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے کسی بھی پیش رو سے زیادہ عرب نژاد مسلمانوں کو سیاسی عہدوں پر تعینات کیا ہے۔ انہوں نے امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو مسلمان فیڈرل ججز کا تقرر بھی کیا ہے۔
مشی گن، اوہائیو اور وسکونسن کی مسلم کمیونٹی نے 'رائٹرز' کی جانب سے رابطہ کرنے پر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔