پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں تحریکِ انصاف کے حامیوں کے مظاہروں کے دوران کچھ لوگ 'نو عمران، نو ریمیٹنسز' کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ مستقبل میں ترسیلات زر میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آ سکتی ہے تاہم معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں کمی آنے کا امکان بہت کم ہے۔
'نو عمران، نو ریمیٹنسز' کا نعرہ برطانیہ میں ایک مظاہرے کے دوران تحریک انصاف کے کچھ حامیوں نے بلند کیا تھا۔ اس نعرے سے مراد ہے کہ اگر عمران خان پاکستان کے وزیرِ اعظم نہیں رہتے تو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملک میں سرمایہ نہیں بھیجیں گے۔
پاکستان کا شمار دنیا بھر میں ترسیل زر کے حوالے سے صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم 33 ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہیں۔
امریکہ میں تحریکِ انصاف کے واشنگٹن - ورجینیا چیپٹر کے صدر جہانزیب بشیرنے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس نعرے کے بارے میں بتایا کہ ان کی جماعت کا چیپٹر اس معاملے پر گفتگو کر رہا ہے۔ ان کے مطابق اس سلسلے میں پاکستان میں موجود جماعت کی قیادت سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے۔
جہانزیب بشیر کے مطابق وہ یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کی معیشت کو نقصان ہو لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ہم یہ دکھائیں ہم نے کتنے کام کیے ہیں۔ ان کے بقول عمران خان پاکستان میں نہ رہے تو بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں پچاس فی صد تک کمی آ سکتی ہے۔
SEE ALSO: بڑھتا تجارتی خسارہ، کم ہوتی ترسیلاتِ زر، پاکستان کے پاس کیا راستے بچے ہیں؟انہوں نے دعویٰ کیا کہ بیرونِ ملک مقیم افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے روشن ڈیجیٹل پاکستان اکاؤنٹ عمران خان کی وجہ سے ہی کھولا تھا اور اب لوگ اس میں سے پیسہ نکالنا چاہتے ہیں۔
امریکہ میں 'اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر میں پاکستان انیشی ایٹو' کے ڈائریکٹر اور معیشت دان عزیر یونس ن 'نو عمران، نو ریمیٹنسز' نعرے کو ناسمجھی پر مبنی سمجھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ جو ترسیلات بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے ملک بھیجتے ہیں وہ زیادہ تر مشرقِ وسطیٰ سے مزدور طبقے کی جانب سے اپنے اہل خانہ کو بھیجی جاتی ہیں۔ڈیٹا ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ ان ترسیلات زر پر انحصار کیا جاتا ہے۔ جہاں پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق ایک گھر کا آٹھ سے بارہ فی صد خرچہ ان ترسیلات زر سے پورا کیا جاتا ہے۔
عزیر یونس کہتے ہیں کہ جو بیرونِ ملک مزدوری کرتے ہیں انہیں اپنا گھر چلانے کے لیے پیسے تو بھیجنا ہیں اور ایسا تو نہیں ہوگا کہ مزدور طبقہ پیسے بھیجنا چھوڑ دے گا۔
ان کے بقول اگر ملک میں مہنگائی بڑھے گی تو بیرون ملک سے زیادہ رقوم ہی ملک میں بھیجی جائیں گی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پیر کو ایک ٹوئٹ میں سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے بتایاتھا کہ روشن ڈیجیٹل پاکستان اکاؤنٹ میں سے رقوم کے تیزی سے نکالے جانے کی خبر درست نہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق اپریل کے مہینے میں اب تک 86 ملین ڈالر کی رقوم ان اکاؤنٹس میں جمع کرائی گئی ہیں اور اب تک جمع ہونے والی رقوم کے اعداد 4 ارب ڈالر سے بڑھ چکے ہیں۔
عمران خان کے دورِ حکومت میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر 2018 میں 20 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2021 میں 33 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔
ورلڈ بینک کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2021 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں 26 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ورلڈ بینک نے جہاں حکومت پاکستان کی طرف سے باضابطہ چینلز کے ذریعے رقوم بھیجے جانے کی حوصلہ افزائی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تعریف کی وہیں اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ افغانستان کی صورتِ حال کی وجہ سے بہت سی رقوم پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو بھیجی گئیں اور ان کے ذریعے افغانستان میں موجود خاندانوں تک بھی رقوم پہنچائی گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ترسیلات زر میں گزشتہ تین برسوں میں 65 فی صد اضافے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے عزیر یونس کا کہنا تھا کہ، "پہلے تو یہ خیال تھا کہ کووڈ کی وجہ سے دنیا بھر میں بیرونِ ملک مقیم افراد کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں کمی آئے گی لیکن جب اعداد و شمار سامنے آئے تو بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور دیگر ممالک میں لوگوں نے زیادہ ترسیلات زر بھیجیں۔"
انہوں نے بتایا کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں سفر رک گیا تھا اور لوگ اپنے گھر آجا نہیں رہے تھے تو انہوں نے پیسے باضابطہ طریقے، جن میں بینکنگ وغیرہ شامل ہیں سے بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ البتہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے روشن ڈیجیٹل پاکستان اکاؤنٹس کھولنے کی وجہ سے لوگوں کو رقوم بھیجنے میں آسانی ہوئی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں ’بہترین شرح نمو‘ کا فائدہ عام آدمی کو کیوں نہیں مل رہا؟عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں پینتیس برس کام کرنے والے ماہر معیشت ڈاکٹر زبیر اقبال مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ترسیلات زر کے دو حصے ہیں۔ ایک تو لوگ اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں، دوسرا سرمایہ کاری کے لیے رقوم بھیجی جاتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر کرنسی کے تبادلے کے ریٹ میں بے یقینی پیدا ہو تو سرمایہ کاری میں کمی آتی ہے اور لوگ انتظار کرتے ہیں کہ استحکام پیدا ہو نے پر ہی سرمایہ بھیجا جائے۔
ان کے بقول سرمایہ کاری کے لیے بھیجی جانے والی رقوم ترسیلات زر کا بیس سے پچیس فی صد تک ہوتی ہیں اور گزشتہ حکومت نے ایسی پالیسیاں متعارف کرائی تھیں جن کی وجہ سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے روشن ڈیجیٹل پاکستان اکاؤنٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس میں جو فنڈنگ ہو رہی تھی وہ عمران خان کی وجہ سے تھی، اس لیے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے اقتدار سے علیحدہ ہونے سے سرمایہ کاری پر مبنی ترسیلات زر میں کمی پیدا ہو سکتی ہے۔