انڈونیشیا چوتھا اسلامی ملک ہے جس نے فلم 'نوح' کی نمائش پر پابندی لگائی ہے، باقی ممالک میں یہ فلم جمعہ کو ریلیز کے لئے پیش کی جارہی ہے
انڈونیشیا نے ہالی وڈ کی بلاک بسٹر فلم ’نوح‘ کی ریلیز پر پابندی لگا دی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ فلم گمراہ کن اور قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق انڈونیشیا کے فلم سنسرشپ بورڈ کے ممبر زین نت توحید سعدی کا کہنا ہے کہ ہم ایسی فلم کو نمائش کی اجازت نہیں دینا چاہتے جس پر تنازع پیدا ہوں اور جذبات بھڑک اٹھیں۔
ان کہنا ہے کہ اسلام میں پیغمبرکو تصویری شکل میں پیش کرنا منع ہے اور ’نوح ‘ کی ریلیز سے مسلمان اور مسیحی برادری کے جذبات مجروح ہوسکتے ہیں۔
دنیا کے تین الہامی مذاہب یہودیت، اسلام اور عیسائیت میں حضرت نوح کو اللہ کا نبی مان کر ان کا احترام کیا جاتا ہے۔
مصر کے الازہر انسٹی ٹیویٹ نے بھی ’نوح‘ کی نمائش کی اجازت نہ دینے کا مطالبہ کیا ہے تاہم مصر کی حکومت نے فلم پرپابندی عائد کرنے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
فلم ’نوح‘ پر پابندی کے فیصلے پر انڈونیشیا کی حکومت کو سوشل میڈیا پرعوام کی تنقید کا سامنا ہے۔
انٹرٹینمنٹ ویب سائٹ دیتی ہا وٹ کے مالک نے ٹوئٹ میں انڈونیشیا کے سنسر بورڈ کے فیصلے کو احمقانہ قرار دیا۔ اسلامی دانشور محمد گن تر رومالی نے ٹوئیٹر پر کہا کہ فلم بائبل میں درج قصے پر بنائی گئی ہے اور اسے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی نہیں کہا جا سکتا۔
فلم ’نوح‘ سے جنم لینے والے تنازع نے 125ملین ڈالرز کی لاگت سے فلم بنانے والے ادارے پیراماوٴنٹ پکچرز کو مجبور کر دیا کہ وہ فلم کی مارکیٹنگ میں ایک وضاحتی نوٹ کا اضافہ کریں۔
فلم ’نوح ‘ کی کہانی حضرت نوح کی کشتی کے گرد گھومتی ہے۔ فلم میں رسل کرو نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ امریکا میں بھی بعض کرسچن اداروں نے رسل کرو کے نوح کا کردار ادا کرنے پر غصے اور تحفظات کا اظہارکیا ہے۔
انڈونیشیا سے پہلے مارچ کے شروع میں متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین بھی ’نوح‘ پر پابندی لگا چکے ہیں۔
فلم ’نوح‘ 28 مارچ کو انڈونیشیا میں ریلیز کی جانی تھی۔ امریکا میں بھی ’نوح‘ 28 مارچ کو ہی ریلیز ہوگی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق انڈونیشیا کے فلم سنسرشپ بورڈ کے ممبر زین نت توحید سعدی کا کہنا ہے کہ ہم ایسی فلم کو نمائش کی اجازت نہیں دینا چاہتے جس پر تنازع پیدا ہوں اور جذبات بھڑک اٹھیں۔
ان کہنا ہے کہ اسلام میں پیغمبرکو تصویری شکل میں پیش کرنا منع ہے اور ’نوح ‘ کی ریلیز سے مسلمان اور مسیحی برادری کے جذبات مجروح ہوسکتے ہیں۔
دنیا کے تین الہامی مذاہب یہودیت، اسلام اور عیسائیت میں حضرت نوح کو اللہ کا نبی مان کر ان کا احترام کیا جاتا ہے۔
مصر کے الازہر انسٹی ٹیویٹ نے بھی ’نوح‘ کی نمائش کی اجازت نہ دینے کا مطالبہ کیا ہے تاہم مصر کی حکومت نے فلم پرپابندی عائد کرنے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
فلم ’نوح‘ پر پابندی کے فیصلے پر انڈونیشیا کی حکومت کو سوشل میڈیا پرعوام کی تنقید کا سامنا ہے۔
انٹرٹینمنٹ ویب سائٹ دیتی ہا وٹ کے مالک نے ٹوئٹ میں انڈونیشیا کے سنسر بورڈ کے فیصلے کو احمقانہ قرار دیا۔ اسلامی دانشور محمد گن تر رومالی نے ٹوئیٹر پر کہا کہ فلم بائبل میں درج قصے پر بنائی گئی ہے اور اسے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی نہیں کہا جا سکتا۔
فلم ’نوح‘ سے جنم لینے والے تنازع نے 125ملین ڈالرز کی لاگت سے فلم بنانے والے ادارے پیراماوٴنٹ پکچرز کو مجبور کر دیا کہ وہ فلم کی مارکیٹنگ میں ایک وضاحتی نوٹ کا اضافہ کریں۔
فلم ’نوح ‘ کی کہانی حضرت نوح کی کشتی کے گرد گھومتی ہے۔ فلم میں رسل کرو نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ امریکا میں بھی بعض کرسچن اداروں نے رسل کرو کے نوح کا کردار ادا کرنے پر غصے اور تحفظات کا اظہارکیا ہے۔
انڈونیشیا سے پہلے مارچ کے شروع میں متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین بھی ’نوح‘ پر پابندی لگا چکے ہیں۔
فلم ’نوح‘ 28 مارچ کو انڈونیشیا میں ریلیز کی جانی تھی۔ امریکا میں بھی ’نوح‘ 28 مارچ کو ہی ریلیز ہوگی۔