امریکہ کے جینیاتی سائنس دان جیفری سی ہال، مائیکل راسبش اور مائیکل ڈبلیو یونگ کومیڈیسن کے شعبے میں نوبیل انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
انہیں یہ ایوارڈ اس حیاتیاتی کلاک کے بارے میں تفصیلات سامنے لانے پر دیا گیا ہے جس کا تعلق زیادہ تر جانداروں کے سونے اور جاگنے کے طریقہ کار سے ہے۔
طب کے شعبے میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے تینوں سائنس دانوں کا تعلق امریکہ سے ہے۔ جیفری ہال اس وقت یونیورسٹی آف مین میں جینیات کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ مائیکل راسبش، بوسٹن کے نزدیک واقع برینڈیز یونیورسٹی سے منسلک ہیں ، جب کہ مائیکل یونگ کا تعلق نیویارک کی رافیلر یونیورسٹی سے ہے۔
سائنس دانوں کی اس ٹیم نے اپنی تحقیق سے یہ واضح کیا کہ کس طرح جانداروں کے اندر موجود حیاتیاتی کلاک سونے، کھانے، ہارمونز اور جسم کے درجہ حرارت کے طریقہ کار تعین کرتا ہے۔
نوبیل کمیٹی کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ اس تحقیقی کا م سے یہ پہلو سامنے آیا ہے کہ پودے، جانور اور انسان اپنے حیاتیاتی کلاک کو کس طرح زمین پر آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ منطبق کرتے ہیں۔
کرہ ارض پر موجود حیات کی تمام اقسام خود کو زمین کی گردش کے مطابق ڈھالتی رہتی ہیں۔ سائنس دان ایک عرصے سے اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ انسانوں سمیت تمام جانداروں کے اندر وقت کے تعین کا ایک خاص حیاتیاتی طریقہ کار موجود ہے جو انہیں دن کے دورانیے کی کمی بیشی کے مطابق خود کو ڈھالنے میں مدد دیتا ہے۔
نوبیل انعام کی جیوری نے کہا ہے کہ سائنس دانوں کی اس ٹیم نے جانداروں کے حیاتیاتی کلاک کے اندر جھانکنے میں کامیابی حاصل کی اور یہ کھوج لگایا کہ یہ کلاک کس طرح کام کرتا ہے۔
ٹیم میں شامل ہال کی عمر 72 سال، راسبش 73 سال اور یونگ 68 سال کے ہیں ۔
جانداروں کے حیاتیاتی کلاک کے نظام کے باعث، جیٹ لیک کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ وقت کے زون کی فوری تبدیلی سے ہمارے اندرونی کلاک اور بیرونی ماحول میں قائم توازن میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔
حیاتیاتی کلاک ہماری نیند کے نظام کا باقاعدہ بناتا ہے جو دماغ کے معمول کے کاموں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ روزمرہ کے حیاتیاتی معمول میں خرابی کا تعلق ڈپریشن، یاداشت کی ساخت، متلون مزاجی، دماغی کارکردگی سے ہوتا ہے۔