امریکہ کے تین ماہرین فلکیات بیری بیرش، کپ تھورن اور رینر وائس کو کشش ثقل کی لہروں کی حقیقت کی دریافت پر طبعیات کا نوبیل انعام حاصل کیا ہے
اس دریافت سے کائنات کی انتہاؤں تک جانے کا راستہ کھول گیا ہے۔
تقریباً ایک صدی قبل دنیا کے معروف سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے اپنا مشہور زمانہ نظریہ اضافت پیش کیا تھا لیکن 2015 تک صرف یہ دریافت ہو سکا تھا کہ کشش ثقل کی لہریں ، کائنات کی نظریاتی ساخت میں وقت اور مقام کے درمیان خفیف حرکت کرتی ہیں۔
وہ الٹراوائلٹ عمل کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں جیسے بلیک ہولز یا ستاروں کا تصادم ۔
امریکی سائنس دانوں نے یہ دریافت ستمبر 2015 میں کی تھی اور اس کا اعلان اگلے سال فروری میں کیا گیا تھا۔ یہ تاریخ ساز کامیابی سائنس دانوں کی کئی دہائیوں پر مشتمل شب و روز محنت کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔
سائنس سے متعلق نوبیل انعام کے حق دار کا تعین کرنے والی کمیٹی سویڈش رائل اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ گورین کے ہینسن نےاپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی دریافت نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
تھورن اور وائس نے کیلی فورینا کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کشش ثقل کی لہروں کے مطالعے کے لیے ایک رصدگاہ قائم کی تھی۔ جس میں کام کرنے والے سائنس دان 1901 سے اب تک 18 نوبیل انعام جیت چکے ہیں۔
ان دونوں سائنس دانوں کے اس پراجیکٹ کی تکمیل میں اہم کردار بیرش کا ہے۔
اس رصدگاہ کے ذریعے پہلی بار کشش ثقل کی ان لہروں کا براہ راست مشاہدہ کیا گیا جو کسی کائناتی واقعہ کے نتیجے میں ایک ارب 30 کروڑ سال پہلے پیدا ہوئی تھیں۔
نوبیل انعام کی مالیت تقریباً 11 لاکھ ڈالر ہے۔