پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک یہ ہمسایہ ملک کشمیر کے متنازعہ خطے کی نیم خود مختار علاقے کی حیثیت بحال نہیں کرتا۔
"وزیرِ اعظم آپ کے ساتھ فون پر" کے نام سے اتوار کی شام ایک لائیو ٹیلی ویژن پروگرام میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر اس مرحلے پر ہم بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لے آتے ہیں تو یہ کشمیریوں ساتھ دھوکہ ہو گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اگست 2019 میں اس وقت اور بھی خراب ہو گئے تھے، جب بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے بھارت کے زیرِ انتظام، مسلم اکثریتی وادی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور اسے بھارت کا اٹوٹ حصہ قرار دے دیا تھا۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم نے اس لائیو شو میں تسلیم کیا کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے سے پاکستان کی معیشت کو بے حد فائدہ ہو سکتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے معنی کشمیریوں کی پوری جدوجہد اور لگ بھگ ایک لاکھ جانوں کی قربانی کو نظر انداز کرنے کے برابر ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے خون کو نظر انداز کر کے تجارتی تعلقات بہتر کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔ "ایسا قطعاً نہیں ہو سکتا"۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر بھارت کشمیر کے بارے میں اپنے حالیہ اقدامات سے پیچھے ہٹتا ہے، تو ہی پاکستان تنازعہ کشمیر پر مذاکرات دوبارہ شروع کر سکتا ہے اور اسے حل کرنے کے لائحہ عمل پر رضامندی کے لئے بات چیت کر سکتا ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ بھارتی اقدامات اقوامِ متحدہ کی طویل عرصے سے موجود اس قرارداد کی خلاف ورزی ہیں جس میں اس علاقے کو متنازعہ قرار دیا گیا ہے۔
نئی دہلی، اسلام آباد کے اعتراض کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت کہتے ہوئے مسترد کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے اقدامات بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہتر بنانے اور وہاں اقتصادی ترقی لانے کے لئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکان بوزکر نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے تین روزہ دورے کے موقع پر جنوبی ایشیا کے ان دونوں حریف ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے تنازعے کا حل تلاش کریں اور اس کی حیثیت تبدیل کرنا بند کر دیں۔
بوزکر نے، جو ایک سابق ترک سفارت کار اور سیاستدان ہیں، کہا کہ، " میں نے تمام فریقوں سے کہا ہے کہ وہ متنازعہ علاقے کی حیثیت تبدیل کرنے سے گریز کریں۔ جنرل اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے میں بھارت اور پاکستان پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس تنازعے کا پر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔"
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان اریندم باگچی نے بوزکر کے بیان کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابلِ قبول ہے۔
اریندم باگچی نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا کہ جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک مقرر کردہ صدر گمراہ کن اور متعصبانہ بیان دیتا ہے، تو وہ اپنے منصب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کا رویہ واقعتاً افسوس ناک ہے اور ان کے عالمی منصب کی وقعت کم کرتا ہے۔