رسائی کے لنکس

پاک بھارت تعلقات پر پاکستانی آرمی چیف کا بیان، امریکی اور پاکستانی ماہرین کیا کہہ رہے ہیں؟


جنرل قمر جاوید باجوہ (فائل فوٹو)
جنرل قمر جاوید باجوہ (فائل فوٹو)

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حل طلب مسائل پورے خطے کو غربت میں دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان اپنے جارح پڑوسی سے سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہوا۔

جمعرات کو اسلام آباد میں منعقدہ نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ سیکیورٹی اخراجات بڑھانے کے لیے انسانی ترقی کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھا جائے۔

آرمی چیف نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی صرف اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنا نہیں، اس کا مقصد وقت کے ساتھ مختلف محرکات کا مقابلہ کرنا ہے۔ لہذٰا نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

قومی سلامتی پر بات کرتے ہوئے آرمی چیف بولے کہ اسے یقینی بنانا صرف فوج کا کام نہیں۔ یہ کثیر الجہتی عمل ہے اور اس میں قوم کا بھی اہم کردار ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے علاقائی اور عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔

'مسئلہ کشمیر کشیدگی کی بڑی وجہ ہے'

مسئلۂ کشمیر کے حوالے سے آرمی چیف جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ہمسایوں کے ساتھ تمام تنازعات پرامن اور باوقار مذاکرات سے حل کرنا چاہتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھا جائے۔ لیکن با معنی مذاکرات کے لیے ہمارے ہمسائے کو سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔

پاک بھارت جنگ بندی معاہدے سے امیدیں باندھنا کیسا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:38 0:00

افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے کہا کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی بدھ کو اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔

پاکستانی آرمی چیف کے بیان پر تاحال بھارت کا کوئی باضابطہ ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

البتہ ماضی میں پاکستان کے سول اور فوجی حکام کی جانب سے تنازع کشمیر پر مذاکرات کی پیش کش پر بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے۔

بھارت پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کرتا رہا ہے۔

امریکی مبصرین پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کے بیانات کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟

واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹیٹوٹ سے وابستہ ڈاکٹر مارون وائن بام نے کہا ہے کہ پاکستانی سویلین اور ملٹری قیادت کی طرف سے بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کی باتیں خوش آئند ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ دونوں ممالک تنازع کشمیر سے بات چیت کا آغاز کریں، حقیقت پسندانہ نہیں ہے اور یہ کہ دونوں ممالک کو پہلے آسان موضوعات پربات کرنی ہو گی۔

واشنگٹن کے ووڈرو ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین وائن بام کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے تناظر میں کشمیر سے بات کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ ان کے بقول اگر پاکستان اور بھارت تجارت جیسے موضوع پر بات کرنا شروع کر دیں تو یہ اس سلسلے میں ایک اچھا نتیجہ سمجھا جائے گا۔

وائن بام کا کہنا تھا کہ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ پس پردہ دونوں ممالک کو امن کی راہ پر لانے کے لیے کردار ادا کر رہا ہو گا، اگرچہ ابھی اس کا کھل کر تذکرہ نہیں ہوا۔ وائن بام کے بقول، امریکہ ہمیشہ سے بھارت اور پاکستان کو بہتر تعلقات استوار کرنے کا کہتا رہا ہے۔ امریکہ کے خطے میں اہم مفادات ہیں اور اس کی توجہ اس وقت چین پر مرکوز ہے۔

تاہم کوگل مین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے بقول انہیں نہیں لگتا کہ پاکستان اور بھارت میں امن عمل کی جانب اب تک امریکہ نے کوئی کردار ادا کیا ہے۔ بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے حالات نے انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ امن کی بات کریں۔

وائن بام کا کہنا تھا کہ ایسی حالت میں کہ بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں، جیو سٹریٹیجک حوالے سے پاکستان بارڈر پر امن، بھارت کے لیے اس وقت اہم ہے۔


'بھارت کو مثبت سگنل دیے جا رہے ہیں'

پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کو مثبت سگنل دیے جا رہے ہیں اور بھارت میں بھی کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو بات چیت کے ذریعے تمام مسائل حل کر کے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے حالیہ دنوں میں دیے جانے والے بیانات کوئی پالیسی شفٹ نہیں بلکہ یہی پاکستان کی پالیسی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہے اور مذاکرات چاہتا ہے لیکن بھارت کی طرف سے کشمیر میں جو اقدامات کیے گئے ہیں جب تک انہیں واپس نہیں لیا جاتا اس وقت تک بھارت سے سنجیدہ بات چیت نہیں ہو سکتی۔

تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے دوست ممالک بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کا یہ مناسب وقت ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے اس بارے میں بار بار مثبت پیغام دیا جا رہا ہے لیکن اب تک بھارت کی طرف سے ایسا کوئی سگنل نہیں ملا۔ امید ہے کہ جلد وہاں سے بھی مثبت جواب آئے گا۔

شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ماضی میں اور اب بھی مذاکرات کی بات کی ہے لیکن بھارت کی طرف سے سخت بیانات دیے گئے جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تلخی میں اضافہ ہوا ہے۔

رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں سیز فائر معاہدے کے حوالے سے جو دونوں ممالک کا مشترکہ بیان سامنے آیا تھا اس کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ اس میں بیک ڈور ڈپلومیسی کی گئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حد تک وزیرِاعظم اور آرمی چیف دونوں بات چیت چاہتے ہیں لیکن بھارت کو بھی مثبت پیش رفت دکھانا ہو گی۔

XS
SM
MD
LG