پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کو آئین اور قانون کے دائرے میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں بدھ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر اراکین پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے لیے پارلیمنٹ کا بند کمرہ اجلاس بلایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق امن کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے تاہم یہ بات چیت آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جائے گی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ شدت پسند تنظیم سے آئین کے تحت ہونے والے ان مذاکرات کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ داخلہ اور خارجہ سلامتی سے متعلق امور پر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس ہوتے رہیں گے۔
بدھ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی سربراہان کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایسے لوگ جو کسی دوسرے ملک کی ایما پر ریاست اور ملک کے خلاف استعمال ہوئے، ان میں سے کچھ کے جرائم ناقابلِ معافی ہیں۔ تاہم ایسے لوگ بھی ہیں جن کے خاندان اور بچے بھی ہیں، انہیں اس ماحول کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا کہ وہ بھی کل کو شدت پسند بن کر سامنے آئیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو شدت پسندی ترک کرکے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ان کے لیے راستہ ہونا چاہیے۔
اس سے قبل پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر تحفظات ظاہر کیے تھے۔ ان تحفظات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تھا۔
اجلاس میں افغانستان کی صورتِ حال اور ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں اب تک کی پیش رفت اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
شدت پسند تنظیم کے ساتھ یہ مذاکرات تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت کے دوران شروع ہوئے تھے جس میں افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کررہے ہیں۔مذاکرات میں پاکستان کے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے عمائدین پر مشتمل جرگے نے بھی شرکت کی تھی۔
افغان طالبان کی میزبانی میں کابل میں ہونے والا مذاکرات کا یہ دور فریقین کے درمیان غیرمعینہ مدت کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے حالیہ بیان میں امید ظاہر کی تھی کہ جنگ بندی زیادہ سے زیادہ طویل ہو اور ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ رکا رہے۔ تاہم اُنہوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی کے خاتمے کی صورت میں وہ افغان سرزمین کسی پر حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان یہ مطالبہ کرتی آ رہی ہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام سابق قبائلی علاقوں(فاٹا) کی پرانی حیثیت بحال کی جائے۔ تاہم سیاسی مبصرین اس مطالبے کو ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں۔
ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات
کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات اور غیرمعینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی کی خبروں کے بعد پاکستان کے کئی حلقے اس پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
حکمران اتحاد کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے گزشتہ ہفتے مرکزی قائدین کے اجلاس میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیرِخارجہ بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اس اجلاس میں مذکورہ معاملے پرسیاسی جماعتوں سے رابطے اور اسے پارلیمان میں اٹھانے کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
دوسری جانب قوم پرست رہنما اور قبائلی علاقوں سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے منگل کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "جو لوگ ہمار اقتل عام کررہے ہیں، ان کے ساتھ مذاکرات کیے جارہے ہیں اور اس عمل میں پارلیمنٹ کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے معاملے پر شاید دوسرے اس لیے بات نہیں کر رہے کیوں کہ وہ خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں مگر وہ ایوان میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس مرتبہ جو تجربہ کیا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔
ادھر جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی گزشتہ ہفتے سینیٹ اجلاس میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے جرگے پر سوالات اٹھائے تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ جرگہ کس نے بنایا؟، اس کا مینڈیٹ کیا ہے؟ اور ٹی ٹی پی نے جرگے کے سامنے جو شرائط پیش کی ہیں وہ کیا ہیں؟
اعتماد سازی کے عمل پر جماعتوں کو تنقید نہیں کرنی چاہیے:بیرسٹر سیف
جرگے کے رابطہ کار اور خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ کابل میں ٹی ٹی پی سے ملاقات کرنے والے جرگے کا مقصد اعتماد سازی کا فروغ تھا نہ کہ کسی قسم کا کوئی فیصلہ کرنا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے اور اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے لیکن ابھی معاملات ابتدائی مرحلے میں ہیں جب تک نقشہ واضح نہیں ہوتا سیاسی قائدین کو کیا بتایا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو مقصدیت کو دیکھتے ہوئے اس معاملے پر بلاجواز تنقید نہیں کرنی چاہیے اور فریقین کو بات چیت کے ذریعے آگے بڑھنے کا موقع دینا چاہیے۔
SEE ALSO: دس برس قبل ڈیورنڈ لائن پر لوگوں کو آنے جانے کی آزادی تھی؛ طالبان کی پاکستانی باڑ پر پھر تنقیدبیرسٹر سیف نے بتایا کہ کابل میں ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ دو روز تک قبائلی جرگے کے ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں پہلی مرتبہ غیر معینہ مدت تک جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جرگہ سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ قبائلی علاقوں کے اقوام کے نمائندوں کا تھا اور اس کا مقصد ٹی ٹی پی کی پاکستانی فوج کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعد مقامی لوگوں میں اعتماد پیدا کرنا تھا تاکہ امن معاہدے کی صورت میں ان لوگوں کی واپسی کی صورت میں مقامی سطح پر انہیں مشکلات نہ ہوں۔
' قبائلی علاقوں کی پرانی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ تسلیم کرنا آسان نہیں'
قبائلی علاقوں اور شدت پسند گروہوں کے معاملات پر نظر رکھنے والے صحافی طاہر خان سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اس قسم کے معاملات آنے چاہئیں۔ لیکن ان معاملات میں سیاسی جماعتوں کا کردار ماضی میں محدود رہا ہے اور سیاست دان ان معاملات کی ذمہ داری اٹھانے سے کتراتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر لوگوں کی رائے منقسم ہے لیکن تشدد سے بچنے کے لیے اس راستے کے ذریعے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جرگے پر سوالات اٹھائے گئےہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جرگہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ جرگہ فریقین کو کسی معاہدے پر متفق کرنے کی کوشش کرے گا۔
طاہر خان نے کہا کہ شدت پسند تنظیم کے ساتھ حکومت، فوج یا قبائلی جرگے کے مذاکرات آسان کام نہیں ۔تاہم اس سلسلے میں جنگ بندی ایک اچھی پیش رفت ہے کیوں کہ تشدد کو روکے بغیر معاملات کو آگے بڑھانا مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں جانب سے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔ تاہم جرگے نے ٹی ٹی پی رہنماؤں پر واضح کیا ہے کہ سابق قبائلی اضلاع کی پرانی حیثیت کی بحالی آسان عمل نہیں کیوں کہ اس پر قانون سازی کے بعد کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔