’ اِس ہدف کو یقینی بنانا کہ القاعدہ امریکہ کے خلاف حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین کبھی استعمال نہ کر پائے، حاصل کرلیا جائے گا، اور افغانستان کی جنگ اگلے سال کے آخر تک ختم ہوجائے گی‘
واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ہفتہ وار ریڈیو خطاب میں کہا ہے کہ افغانستان کے خلاف لشکر کشی کے پیچھے امریکہ کا اصل مقصد حاصل ہونے ہی والا ہے۔
سنیچر کے روز صدر نے کہا کہ اِس ہدف کو یقینی بنانا کہ القاعدہ امریکہ کے خلاف حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین کا کبھی استعمال نہ کرپائے حاصل کر لیا جائے گا، اور افغانستان کی جنگ اگلے سال کے آخر تک ختم ہو جائے گی۔
جمعے کے روز، مسٹر اوباما نے وائٹ ہاؤس میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کرکے افغانستان میں مستقبل کے امریکی ’رول‘ کے بارے میں بات چیت کی۔ دونوں راہنماؤں نےبعد میں ایک مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کیا۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اُن کےافغان ہم منصب اورخود اُنھوں نے آنے والی موسم بہارمیں افغانستان کے لیے امریکی فوجی مشن کو تبدیل کرنے کے منصوبے سے اتفاق کیا، جو بات توقع سے چند ماہ قبل از وقت ہوگی۔
ملاقات کے بعد مسٹر اوباما نے کہا کہ امریکی فوج افغان فورسز کے لیے تربیت، مشاورت اور اعانت کے کام پر دھیان مرکوز کرے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ ایک ’تاریخ ساز لمحہ‘ ہوگا۔
اِن دنوں، افغانستان میں تقریباً 66000امریکی فوجی تعینات ہیں، جو تعداد بین الاقوامی اتحاد کے کئی ایک ہزار فوجیوں کے علاوہ ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ بین الاقوامی افواج2014ء کے اواخر تک اپنی عسکری کارروائیاں بند کردیں گی۔
سنہ 2014کے بعد افغانستان میں کتنی امریکی فوج تعینات رہے گی، اِس کےبارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا گیا۔
مسٹر اوباما نے جمعے کے دِن کہا کہ کسی ایسے مجوزہ منصوبے کے سلسلے میں استثنیٰ کا سمجھوتا درکار ہوگا، جِس کی رو سے امریکی فوجوں کو افغان قانون کے تحت کام نہ کرنا پڑے۔
مسٹر کرزئی نے کہا کہ وہ اور مسٹر اوباما نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے بارے میں ایک منصوبے پر بھی غور کیا۔
افغان لیڈر نے کہا کہ افغان امن عمل سے متعلق نمائندوں اور طالبان کے مابین مذاکرات قطر میں واقع طالبان کے دفتر میں ہونے کی توقع ہے۔
سنیچر کے روز صدر نے کہا کہ اِس ہدف کو یقینی بنانا کہ القاعدہ امریکہ کے خلاف حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین کا کبھی استعمال نہ کرپائے حاصل کر لیا جائے گا، اور افغانستان کی جنگ اگلے سال کے آخر تک ختم ہو جائے گی۔
جمعے کے روز، مسٹر اوباما نے وائٹ ہاؤس میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کرکے افغانستان میں مستقبل کے امریکی ’رول‘ کے بارے میں بات چیت کی۔ دونوں راہنماؤں نےبعد میں ایک مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کیا۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اُن کےافغان ہم منصب اورخود اُنھوں نے آنے والی موسم بہارمیں افغانستان کے لیے امریکی فوجی مشن کو تبدیل کرنے کے منصوبے سے اتفاق کیا، جو بات توقع سے چند ماہ قبل از وقت ہوگی۔
ملاقات کے بعد مسٹر اوباما نے کہا کہ امریکی فوج افغان فورسز کے لیے تربیت، مشاورت اور اعانت کے کام پر دھیان مرکوز کرے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ ایک ’تاریخ ساز لمحہ‘ ہوگا۔
اِن دنوں، افغانستان میں تقریباً 66000امریکی فوجی تعینات ہیں، جو تعداد بین الاقوامی اتحاد کے کئی ایک ہزار فوجیوں کے علاوہ ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ بین الاقوامی افواج2014ء کے اواخر تک اپنی عسکری کارروائیاں بند کردیں گی۔
سنہ 2014کے بعد افغانستان میں کتنی امریکی فوج تعینات رہے گی، اِس کےبارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا گیا۔
مسٹر اوباما نے جمعے کے دِن کہا کہ کسی ایسے مجوزہ منصوبے کے سلسلے میں استثنیٰ کا سمجھوتا درکار ہوگا، جِس کی رو سے امریکی فوجوں کو افغان قانون کے تحت کام نہ کرنا پڑے۔
مسٹر کرزئی نے کہا کہ وہ اور مسٹر اوباما نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے بارے میں ایک منصوبے پر بھی غور کیا۔
افغان لیڈر نے کہا کہ افغان امن عمل سے متعلق نمائندوں اور طالبان کے مابین مذاکرات قطر میں واقع طالبان کے دفتر میں ہونے کی توقع ہے۔