امریکہ کے صدر براک اوباما نے ہالی ووڈ کے فلم اسٹوڈیو 'سونی پکچرز' پر ہیکنگ حملے کے الزام میں شمالی کوریا پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دیدی ہے۔
امریکی محکمۂ خزانہ کے مطابق نئی پابندیاں شمالی کوریا کے تین اہم سرکاری اداروں اور 10 شہریوں پر عائد کی گئی ہیں۔
پابندیوں کا نشانہ بننے والے سرکاری اداروں میں شمالی کوریا کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی، ہتھیاروں کی خرید و فروخت کا نگران سرکاری ادارہ اور سائنسی تحقیق کی ایجنسی شامل ہے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ پابندی کا نشانہ بننے والے تینوں اداروں کا 'سونی پکچرز' کی ہیکنگ کے واقعے سے کیا تعلق ہے۔
ان تینوں اداروں پر شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے تعلق کے الزام میں پہلے سے ہی امریکی پابندیاں عائد ہیں۔
محکمۂ خزانہ کے مطابق شمالی کوریا کے جن 10 شہریوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں سے بعض شمالی کوریا کی حکومت کے افسران جب کہ دیگر پابندی کا نشانہ بننے والے تینوں سرکاری اداروں کے اعلیٰ سطحی ملازمین ہیں۔
'وہائٹ ہاؤس' کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیاہے کہ جمعے کو عائد کی جانے والی پابندیاں ہالی ووڈ کے فلم اسٹوڈیو پر شمالی کوریا کے سائبر حملے کا "پہلا امریکی جواب ہے"۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پابندیاں شمالی کوریا کی حکومت کے اشتعال انگیز، جارحانہ اور غیر مستحکم اقدامات اور پالیسیوں، خصوصاً اس کی تبا کن سائبر پالیسی، کا جواب ہیں۔
'وہائٹ ہاؤس' کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ شمالی کوریا کی جانب سے 'سونی پکچرز' پر حملے کو انتہائی سنجیدہ مسئلہ سمجھتا ہے جس کا مقصد امریکی کمپنی کو مالی نقصان پہنچانا اور اظہارِ رائے کی آزادی سلب کرنے کی کوششیں کرکے امریکی فن کاروں کو خوفزدہ کرنا تھا۔
شمالی کوریا کی حکومت نے 'سونی پکچرز' کے کمپیوٹر نظام پر گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے امریکہ کو اس کی مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی جسے اوباما انتظامیہ نے مسترد کردیا تھا۔
سائبر حملے نے 'سونی' کمپنی کے زیرِ انتظام ہالی وڈ فلم اسٹوڈیو کے کمپیوٹر نظام کو بری طرح متاثر کیا تھا جس کے نتیجے میں کمپنی کے 47 ہزار ملازمین اور اہم شخصیات کی نجی تفصیلات، ای میلز اور اسٹوڈیوز کی مستقبل میں آنے والے فلموں کی معلومات انٹرنیٹ پر جاری ہوگئی تھیں۔
امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے افسران نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں قرار دیا تھا کہ اس سائبر حملے میں شمالی کوریا کی حکومت بالواسطہ طور پر ملوث تھی۔
ہیکرز نے فلم اسٹوڈیو کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے اپنی مزاحیہ فلم 'د ی انٹرویو' کی نمائش منسوخ نہ کی تو نہ صرف اس پر مزید حملے کیے جائیں گے بلکہ فلم دکھانے والے سنیما گھروں اور فلم بینوں کو بھی 'گیارہ ستمبر 2001ء' کی طرز کے حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔
مذکورہ فلم شمالی کوریا کی کمیونسٹ حکومت کے سربراہ کم جونگ ان کے قتل کی سازش پر بنائی گئی ہے جس پر عمل درآمد کے لیے 'سی آئی اے' دو صحافیوں کی خدمات حاصل کرتی ہے۔
اس مزاحیہ فلم میں کمیونسٹ رہنما کا کر مذاق اڑایا گیا ہے اور انہیں مضحکہ خیزا نداز میں پیش کیا گیا ہے۔دھمکیوں کے بعد 'سونی پکچرز' نے یہ فلم امریکہ کے مخصوص سنیما گھروں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر ریلیز کی تھی جہاں اس نے اچھا بزنس کیا ہے۔
خیال رہے کہ شمالی کوریا 1950 کی دہائی سے امریکی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے جنہیں شمالی کوریا کی جانب سے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود تین جوہری تجربے کرنے کے بعد مزید سخت کردیا گیا ہے۔