صدر اوباما کا کہنا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد کو کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کے لیے ’ٹھوس اقدامات‘ کرنا ہوں گے اور ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے میں سنجیدہ ہیں۔
واشنگٹن —
امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ اگر شام کے مسئلے اور شام میں کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کے لیے سفارتکاری کے ذریعے کوئی ’سنجیدہ پلان‘ وضع کیا گیا تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
صدر اوباما کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ سمیت عالمی برادری کو سفارتکاری کی مجوزہ کوششوں میں ناکامی کی صورت میں ممکنہ کارروائی کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
ہفتے کے روز اپنے ہفتہ وار خطاب میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد کو کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کے لیے ’ٹھوس اقدامات‘ اٹھانا ہوں گے اور ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں۔
صدر اوباما کا ہفتے کے روز نشر ہونے والا یہ خطاب، امریکہ اور روسی سفارتکاروں کے درمیان شام کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے معاملے پر امریکہ اور روس کے درمیان اتفاق سے قبل جمعے کے روز ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اوباما انتظامیہ شام میں 21 اگست کو ہونے والے کیمیاوی حملے کا ذمہ دار شامی حکومت کو ٹھہراتی ہے۔ اس کیمیاوی حملے میں 1,400 شامی افراد ہلاک ہوئے تھے۔
صدر اوباما نے اس حملے کی پاداش میں شام پر فوجی کارروائی کے لیے زور دیا تھا لیکن سفارتکاری ذرائع کے ذریعے اس مسئلے کے حل پر اتفاق کے بعد فی الوقت شام پر فوجی کارروائی کا معاملہ کچھ عرصے کے لیے روک لیا گیا ہے۔
صدر اوباما کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ سمیت عالمی برادری کو سفارتکاری کی مجوزہ کوششوں میں ناکامی کی صورت میں ممکنہ کارروائی کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
ہفتے کے روز اپنے ہفتہ وار خطاب میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد کو کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کے لیے ’ٹھوس اقدامات‘ اٹھانا ہوں گے اور ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں۔
صدر اوباما کا ہفتے کے روز نشر ہونے والا یہ خطاب، امریکہ اور روسی سفارتکاروں کے درمیان شام کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے معاملے پر امریکہ اور روس کے درمیان اتفاق سے قبل جمعے کے روز ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اوباما انتظامیہ شام میں 21 اگست کو ہونے والے کیمیاوی حملے کا ذمہ دار شامی حکومت کو ٹھہراتی ہے۔ اس کیمیاوی حملے میں 1,400 شامی افراد ہلاک ہوئے تھے۔
صدر اوباما نے اس حملے کی پاداش میں شام پر فوجی کارروائی کے لیے زور دیا تھا لیکن سفارتکاری ذرائع کے ذریعے اس مسئلے کے حل پر اتفاق کے بعد فی الوقت شام پر فوجی کارروائی کا معاملہ کچھ عرصے کے لیے روک لیا گیا ہے۔