صدر براک اوباما نے منگل کے روز اس بات کا عہد کیا کہ امریکہ اس سال کے آخر تک جنگ زدہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودہ تعداد، جو 9800 ہے، ’اُسے جاری رکھے گا‘۔
وائٹ ہاؤس میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ہونے والی تفصیلی بات چیت کے بعد، ایک مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی صدر نے کہا کہ، ’افغان فوج کے لیے مشاورت اور تربیت کا کام برقرار رکھا جائے گا، جب کہ امریکہ افغانستان میں 9800 فوجی تعینات رکھے گا‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ، ’افغانستان اب بھی خطرناک جگہ ہے، جہاں باغی حملے ہوتے ہیں، جن میں شہری آبادی کے خلاف بزدلانہ خودکش حملے بھی شامل ہیں‘۔
اُنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکی افواج کی جانب سے دی گئی قیمتی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کردہ کامیابیوں کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ نہ صرف مشاورت اور تربیت کا کام بجا لایا جائے گا، ’بلکہ امریکی افواج اہداف کا تعین کرکے انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے سلسلے میں افغان فوج کی مدد کریں گی‘۔
ساتھ ہی، صدر اوباما نے واضح کیا کہ سال 2016ء کے بعد حالات کا از سر نو جائزہ لے کر، آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔
صدر اشرف غنی نے کہا کہ امریکہ کی طرف فوج کی واپسی میں ’لچک کا اعلان کرنے کا اقدام اہمیت کا حامل ہے‘، جس سے ملک میں جاری اصلاحات کو تیز تر کرنے میں مدد ملے گی۔ ساتھ ہی، اِس سے افغان قومی سلامتی کی افواج کو بہتر قیادت کی استعداد بڑھانے کے بنیادی مشن میں مدد ملے گی، اُن کی تیاری میں بہتری آئے، اور اسلحے کے استعمال اور تربیت میں مدد ملے گی۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ جمہوری طور پر منتخب افغان حکومت ملک میں امن، استحکام اور ترقی کے لیے جستجو کر رہی ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ ہم قومی یکجہتی کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں، اور یہ کہ افغانستان میں لڑاکا مشن کے خاتمے کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ افغانستان کو درکار مدد جاری نہیں رکھے گا۔
اُنھوں نے صدر اشرف غنی کی جانب سے پاکستان کا دورہ کرنے کی تعریف کی، جو قدم امن کے حصول کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
افغان صدر نے ’اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘ کو تقویت دینے اور افغانستا ن کی مدد کرنے پر صدر اوباما اور امریکی عوام کا شکریہ ادا کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکی اور یورپی افواج کی قربانیوں کے نتیجے میں افغانستان میں امن اور سلامتی کی راہ ہموار ہوئی ہے، اور اُن دہشت گرد اور شدت پسند عناصر کے خاتمے میں مدد ملی ہے جو افغانستان، خطے اور دنیا بھر کے امن و سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بنے ہوئے تھے۔
صدر اشرف غنی نے کہا کہ اس وقت ملک میں 30 لاکھ افغانی بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، جب کہ ملکی کابینہ میں چار خواتین ارکان شامل ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ افغانستان میں غربت کی شرح 36 فی صد ہے، جس صورت حال کے مداوا کے لیے طویل مدتی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے؛ اور اس امید کا اظہار کیا کہ وہ وقت دور نہیں جب ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔
افغان صدر نے کہا کہ دنیا کو پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد امریکہ افغانستان کی مدد کے لیے وہاں پہنچا، ’جب کہ اب ہمارے یکساں مفادات نے ہم میں قربت پیدا کردی ہے، جسے برقرار رکھا جائے گا‘۔
افغانستان کے صدر نے امریکی ٹیکس دہندگان کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے محنت سے کمائی گئی اپنی کثیر دولت سے امریکی افواج کو افغانستان میں تعینات رکھنے میں مدد دی، تاکہ بغاوت کا قلع قمع ہو اور دہشت گردی کا انسداد ممکن ہوا؛ جس سے افغانستان میں جمہوریت پروان چڑھی، اور سلامتی اور استحکام کی طرف قدم آگے بڑھے۔
اشرف غنی اور افغانستان حکومت کے اقتدار میں شراکت دار، چیف اگزیکٹو عبداللہ عبداللہ دو روزہ سے دورہٴامریکہ پر ہیں، جہاں وہ امریکی اہل کاروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ دورے کا مقصد باہمی تعلقات میں بہتری لانا ہے، جو تقریباً 14 برسوں سے جاری جنگ کے دوران، اکثر کشیدگی کا شکار ہوتا رہا ہے، خاص طور پر سابق صدر حامد کرزئی کے دور میں۔
منگل کے روز، صدر اوباما سے ملاقات سے قبل، صدر اشرف غنی نے آرلنگٹن کے قومی قبرستان کا دورہ کیا، جہاں افغانستان میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے 2300 امریکی فوجی دفن ہیں۔ اُنھوں نے نامعلوم افراد کی مزار بھی پھولوں کی چادر چڑھائی، جو جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے۔
گذشتہ سال، امریکی افواج کے انخلا کے بعد، اب افغانستان میں اندازاً 9800 امریکی فوجی تعینات ہیں، جن کا کام افغان فوج کو مشورہ دینا اور تربیت فراہم کرنا ہے۔
اوباما نے اعلان کر رکھا تھا کہ اس سال کے اواخر تک امریکی فوج کی تعداد کم کرکے 5500 تک لائی جائے گی، جب کہ 2017ء کے اوائل میں جب وہ اپنے عہدے سے برخواست ہوں گے، اس تعداد میں مزید کمی لائی جائے گی۔ دونوں ملکوں کے مابین جاری مذاکرات میں فوجی انخلا کا معاملہ ایجنڈہ پر سر فہرست رہا ہے۔