وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ مسٹر اوباما نے تبت کی مذہبی، ثقافتی اور لسانی روایات کے لیے اپنی ٹھوس حمایت کا اعادہ کیا
واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے جمعے کے روز تبت کے جلاوطن روحانی رہنما، دلائی لاما کو وائٹ ہاؤس مدعو کیا، جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے، چین نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے باعث امریکہ سے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جمعے کو ہونے والی یہ ملاقات نجی نوعیت کی تھی، جس میں پریس موجود نہیں تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ مسٹر اوباما نے تبت کی مذہبی، ثقافتی اور لسانی روایات کے لیے اپنی ٹھوس حمایت کا اعادہ کیا۔
اُنھوں نے چین کے اندر رہتے ہوئے تبت کو مزید خودمختاری دلانے سے متعلق دلائی لاما کے اختیار کردہ عدم تشدد پر مبنی انداز کو سراہا۔
کارنی نے کہا کہ اُنھوں نےصدر کو بتایا کہ وہ تبت کے لیے آزادی کا مطالبہ نہیں کرتے، اور اُنھیں امید ہے کہ اس سلسلے میں چینی حکام کے ساتھ مکالمے کا اجرا ہوگا۔
مسٹر اوباما نے دلائی لاما کے ساتھ ملاقات ’اوول آفس‘ کے برعکس ’میپ روم‘ میں کی، جہاں روایتی طور پر صدور عالمی رہنماؤں سے مذاکرات کیا کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ صدر نے دلائی لاما کو بین الاقوامی طور پر ایک معزز مذہبی اور ثقافتی رہنما کی حیثیت سے مدعو کیا۔
بات چیت سے قبل، چین کی وزارتِ خارجہ نے وائٹ ہاؤس پر زور دیا کہ اس ملاقات کو منسوخ کیا جائے، اور متنبہ کیا کہ اس کے سنگین سفارتی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اپنی چین مخالف علیحدگی پسند سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی غرض سے، دلائی لاما نے ایک مذہبی ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ دلائی لاما پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وہ تبت کے علیحدگی پسندوں کو نذرآتش کرنے کے احتجاج پر اکسا رہے ہیں۔ دلائی لاما نے ہمیشہ اس الزام کو مسترد کیا ہے۔
ایسے میں جب امریکہ تبتیوں کے انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہے، وہ تبت کو چین کے ایک حصے کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور اُس کی آزادی کا مخالف ہے۔
مسٹر اوباما نے 2010ء اور 2011ء میں بھی دلائی لاما کو مدعو کیا تھا، جس پر چین نے کوئی براہِ راست رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔
چین میں متعدد تبتی لوگ حکومت پر مذہبی اور ثقافتی نسل کشی کی مہم جوئی کا الزام لگاتے ہیں، جب کہ ’ہانس‘ نسل کی اکثریت والے افراد تاریخی طور پر تبتی علاقوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ تبتیوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور جاری وسیع تر سرمایہ کاری کی طرف نشاندہی کرتے ہیں، جس کے بارے میں اُس کا کہنا ہے کہ ان کے طفیل، تبت کو جدید بنانے اور زندگی کے اعلیٰ معیار کے حصول میں مدد ملی ہے۔
جمعے کو ہونے والی یہ ملاقات نجی نوعیت کی تھی، جس میں پریس موجود نہیں تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ مسٹر اوباما نے تبت کی مذہبی، ثقافتی اور لسانی روایات کے لیے اپنی ٹھوس حمایت کا اعادہ کیا۔
اُنھوں نے چین کے اندر رہتے ہوئے تبت کو مزید خودمختاری دلانے سے متعلق دلائی لاما کے اختیار کردہ عدم تشدد پر مبنی انداز کو سراہا۔
کارنی نے کہا کہ اُنھوں نےصدر کو بتایا کہ وہ تبت کے لیے آزادی کا مطالبہ نہیں کرتے، اور اُنھیں امید ہے کہ اس سلسلے میں چینی حکام کے ساتھ مکالمے کا اجرا ہوگا۔
مسٹر اوباما نے دلائی لاما کے ساتھ ملاقات ’اوول آفس‘ کے برعکس ’میپ روم‘ میں کی، جہاں روایتی طور پر صدور عالمی رہنماؤں سے مذاکرات کیا کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ صدر نے دلائی لاما کو بین الاقوامی طور پر ایک معزز مذہبی اور ثقافتی رہنما کی حیثیت سے مدعو کیا۔
بات چیت سے قبل، چین کی وزارتِ خارجہ نے وائٹ ہاؤس پر زور دیا کہ اس ملاقات کو منسوخ کیا جائے، اور متنبہ کیا کہ اس کے سنگین سفارتی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اپنی چین مخالف علیحدگی پسند سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی غرض سے، دلائی لاما نے ایک مذہبی ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ دلائی لاما پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وہ تبت کے علیحدگی پسندوں کو نذرآتش کرنے کے احتجاج پر اکسا رہے ہیں۔ دلائی لاما نے ہمیشہ اس الزام کو مسترد کیا ہے۔
ایسے میں جب امریکہ تبتیوں کے انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہے، وہ تبت کو چین کے ایک حصے کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور اُس کی آزادی کا مخالف ہے۔
مسٹر اوباما نے 2010ء اور 2011ء میں بھی دلائی لاما کو مدعو کیا تھا، جس پر چین نے کوئی براہِ راست رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔
چین میں متعدد تبتی لوگ حکومت پر مذہبی اور ثقافتی نسل کشی کی مہم جوئی کا الزام لگاتے ہیں، جب کہ ’ہانس‘ نسل کی اکثریت والے افراد تاریخی طور پر تبتی علاقوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ تبتیوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور جاری وسیع تر سرمایہ کاری کی طرف نشاندہی کرتے ہیں، جس کے بارے میں اُس کا کہنا ہے کہ ان کے طفیل، تبت کو جدید بنانے اور زندگی کے اعلیٰ معیار کے حصول میں مدد ملی ہے۔