واشنگٹن —
چین کے سکیورٹی اداروں نے ملک کے مسلم اکثریتی مغربی علاقے سنکیانگ میں کم از کم 11 "دہشت گرد" ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے 'ژنہوا' کے مطابق موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر سوار ان دہشت گردوں نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا تھا جو ایک مقامی پارک کے دروازے پر معمول کے گشت کے لیے جمع ہورہے تھے۔
ایجنسی کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی ایک کار میں مایع گیس کے کئی سیلنڈر موجود تھے جنہیں وہ خود کش حملے میں استعمال کرنا چاہتے تھے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس کی جوابی فائرنگ سے آٹھ حملہ آور مارے گئے جب کہ، حکام کے مطابق، باقی تین حملہ آور اپنی ہی گاڑی میں موجود سیلنڈر پھٹنے سے ہلاک ہوئے۔
خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں واقعے کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
سنکیانگ کے جس علاقے میں یہ ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ کرغیزستان کی سرحد سے منسلک ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ کرغز حکومت کے سرحدی محافظوں نے اس علاقے میں 11 افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن پر مقامی ایغور مسلمانوں کی ایک شدت پسند تنظیم سے تعلق ہونے کا شبہ تھا۔
خیال رہے کہ سنکیانگ میں آباد ایغور مسلمانوں اور ریاستی سکیورٹی اداروں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں معمول ہیں۔ علاقے کے ایغور مسلمان چین کی اکثریتی ہان آبادی اور حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک برتے جانے اور مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کے خلاف اقدامات کرنے کی شکایت کرتے ہیں۔
چین کی حکومت خطے میں پیش آنے والے بیشتر پر تشدد واقعات کی ذمہ داری 'ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ' نامی تنظیم پر عائد کرتی ہے جو چینی حکومت کے بقول خطے میں مسلمانوں کی آزاد ریاست کے حصول کی مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
لیکن انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت انتہا پسندی کے خطرے کو ہوا بنا کر اس کی آڑ میں خطے کے مسلمانوں کی مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چین کی کمیونسٹ حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
دریں اثنا چین میں موجود امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جمعے کو بیجنگ میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ چینی حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ بدستوں چین، خصوصاً تبت اور ایغور نسل کے علاقوں میں انسانی حقوق کی صوتِ حال پر تشویش کا شکار ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے 'ژنہوا' کے مطابق موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر سوار ان دہشت گردوں نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا تھا جو ایک مقامی پارک کے دروازے پر معمول کے گشت کے لیے جمع ہورہے تھے۔
ایجنسی کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی ایک کار میں مایع گیس کے کئی سیلنڈر موجود تھے جنہیں وہ خود کش حملے میں استعمال کرنا چاہتے تھے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس کی جوابی فائرنگ سے آٹھ حملہ آور مارے گئے جب کہ، حکام کے مطابق، باقی تین حملہ آور اپنی ہی گاڑی میں موجود سیلنڈر پھٹنے سے ہلاک ہوئے۔
خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں واقعے کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
سنکیانگ کے جس علاقے میں یہ ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ کرغیزستان کی سرحد سے منسلک ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ کرغز حکومت کے سرحدی محافظوں نے اس علاقے میں 11 افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن پر مقامی ایغور مسلمانوں کی ایک شدت پسند تنظیم سے تعلق ہونے کا شبہ تھا۔
خیال رہے کہ سنکیانگ میں آباد ایغور مسلمانوں اور ریاستی سکیورٹی اداروں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں معمول ہیں۔ علاقے کے ایغور مسلمان چین کی اکثریتی ہان آبادی اور حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک برتے جانے اور مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کے خلاف اقدامات کرنے کی شکایت کرتے ہیں۔
چین کی حکومت خطے میں پیش آنے والے بیشتر پر تشدد واقعات کی ذمہ داری 'ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ' نامی تنظیم پر عائد کرتی ہے جو چینی حکومت کے بقول خطے میں مسلمانوں کی آزاد ریاست کے حصول کی مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
لیکن انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت انتہا پسندی کے خطرے کو ہوا بنا کر اس کی آڑ میں خطے کے مسلمانوں کی مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چین کی کمیونسٹ حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
دریں اثنا چین میں موجود امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جمعے کو بیجنگ میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ چینی حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ بدستوں چین، خصوصاً تبت اور ایغور نسل کے علاقوں میں انسانی حقوق کی صوتِ حال پر تشویش کا شکار ہے۔