صدر اوباما بھارت کے تین روزہ دورے کے دوران تجارت اور جنوبی ایشیا میں انسداد دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی سے لے کر جوہری توانائی کی خرید وفروخت کے سمجھوتے تک مختلف معاملات پر توجہ دیں گے۔ لیکن واشنگٹن کے بعض ماہرین کا کہنا ہے ان شعبوں میں مزید تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک سینٹر فار اے نیوامریکن سکیورٹی نے بھارت اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں مزید پختگی لانے کی تجاویز ایک رپورٹ کی شکل میں پیش کیں ہیں۔ اس تھنک ٹینک کے تجزیہ کار ڈاکٹر پیٹرک کرونن کہتے ہیں کہ کچھ تاخیر کے ساتھ صدر اوباما کا یہ دورہ بھارت اور امریکہ کے درمیان شراکت داری کا سلسلہ وہیں سے دوبارہ آگے بڑھائے گا جہاں پچھلی امریکی انتظامیہ اسے پہنچایا تھا۔پچھلی امریکی انتظامیہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہی تھی اور اب صدر اوباما نے یہ عزم اپنے ذمے لیا ہے۔ وہ اسے مزید آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
سینٹر فار نیوامریکن سکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کو بھارت کے ساتھ تعلقات مزید پختہ اور موثر بنانے کے لیے ایک ایسی جامع حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے، جس میں دفاع، تجارت، توانائی اور ماحولیات کے معاملات پر مشترکہ اقدامات اور طویل المیعاد منصوبہ بندی شامل ہو ۔ اس ادارے کے ایک دوسرے تجزیہ کار ابراہیم ڈنمارک کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کا یہ دورہ ایسی ہی حکمت عملی کی جانب ایک ٹھوس قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ ان معاہدوں پر غور کریں جو صدر اوباما کے دورے کے دوران طے کیے جائیں گے، تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کا ایجنڈا بہت سی توقعات پر مبنی اور جارحانہ ہو گا۔اور مجھے امید ہے کہ گزشتہ 10 سے 15 برسوں میں بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات میں ایک اور اہم قدم ہو گا۔
گزشتہ ایک دہائی میں بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کے علاوہ بہت سی امریکی کمپنیوں نے نوکریاں تک بھارت کو آؤٹ سورس کیں ۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے ان کمپنیوں کو ٹیکس میں رعائت دی۔ اس کے علاوہ سابق صدر بش بھارت کے ساتھ امریکہ کا سول نیوکلیئرمعاہدہ امریکی کانگرس سے منظور کرانے میں بھی کامیاب رہے۔
صدر اوباما کی انتظامیہ نے بھی بھارت کے ساتھ تعلقات قائم رکھے۔ لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق ان تعلقات کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ صدارت سنبھالنے کے بعد صدر اوباما نے بھارت کو نوکریاں فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لیے ٹیکس میں رعایت کم کرنے اور یہی رعائت ان کمپنیوں کو دینے کا منصوبہ پیش کیا جو امریکہ میں نوکریاں پیدا کر رہی ہیں۔
لیسا کرٹس کہتی ہیں کہ میں یہ نہیں سمجھتی کہ صدر اوباما اس سول نیوکلیئر ڈیل کو صدر بش کی طرح اہمیت دیں گے۔ صدر اوباما کو یہ معاہدہ ورثے میں ملا ہے۔ وہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ تو نہیں ڈالیں گے، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ صدر بش کی انتظامیہ کی طرح اس معاہدے پر سیاسی سرمایہ صرف نہیں کریں گے۔
واشنگٹن کے ایک قدامت پسند تھنک ٹینک ہیری ٹیج فاؤنڈیشن کی اسکالر لیسا کرٹس کہتی ہیں کہ امریکہ کی موجودہ سیاسی اور اقتصادی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے صدر اوباما امریکہ اور بھارت کے تجارتی تعلقات مضبوط بنانے اور بھارت میں امریکہ کے لیے کاروباری مواقع پیدا کرنے پر بات چیت کریں گے۔ لیکن انہیں امید ہے کہ صدر اوباما جنوبی ایشیا میں سیاسی توازن برقرار رکھنے کے حوالے سے بھی بھارت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کریں گے۔
لیسا کرٹس کا خیال ہے کہ وہ علاقائی سیاست کے حقائق کو بھی مد نظر رکھیں گے اور اس نقطہ نظر سے بھی بھارت امریکہ کی شراکت داری پر توجہ دیں گے۔ میرا خیال ہے کہ چین کی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم توازن کی کیفیت ،چین کی اپنی جنوبی اور مشرقی بحری حدود کی پالیسیاں اور چین بھارت کے درمیان سرحدی تنازعے کی صورت حال کی وجہ سے امریکہ اور بھارت کے درمیان باہمی تعاون کی بہت ٹھوس بنیاد موجود ہے۔
بعض مبصرین کو توقع ہے کہ صدر اوباما جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کی روک تھام کے موضوع پر بھی بھارت کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ممبئی کے حملوں میں ملوث پاکستانی نژاد امریکی ڈیوڈ ہیڈ لی کے بارے میں کچھ نئی معلومات کے پیش نظر بھارت میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ممبئی حملوں میں ملوث افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ کہاں تک تعاون کیا۔
کرٹس کا کہناہے کہ حال ہی میں یہ معلومات سامنے آئی ہیں کہ ہیڈلی کی بیویوں نے 2005ءمیں امریکی عہدے داروں کو بتایا تھا کہ ہیڈلی نے نام بدل کر بھارت کا سفر کیا تھا، اور اس کی لشکر طیبہ سے بھی ممکنہ طور پر وابستگی تھی۔ بھارتی عہدے دار اب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امریکہ نے یہ معلومات بھارت کو بروقت کیوں نہیں فراہم کیں اور اگر یہ معلومات بھارت کے پاس ہوتیں تو ممبئی کے حملوں کو ممکنہ طورپر روکا جا سکتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ صدر واباما کے دورے کے دوران اس معاملے پر سوال ضرور اٹھا یا جائے گا اور وہ اس پر زیادہ روشنی نہیں ڈالنا چاہیں گے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ان سے یہ سوال پوچھا جائے گا ۔
امریکہ اور بھارت دونوں نے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما سے ایک بہت چھوٹے عرصے میں بہت سی پیش رفت کی توقع کی جار رہی ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس دورے میں وہ ان تمام توقعات کو پورا نہ کر پائیں۔