صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات ابھی بھی دونوں فریق کے مفاد میں ہیں۔ مگر دونوں فریقوں کی جانب سے اس ضمن میں مشکل فیصلے کرنے کی خواہش نہیں دیکھی گئی
واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی جانب سے اپنے لائحہ ِعمل کے تعین تک مشرق ِ وسطیٰ میں جاری امن مذاکرات میں شاید ایک وقفے کی ضرورت ہے۔
صدر اوباما سیئول میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات ابھی بھی دونوں فریقوں کے مفاد میں ہیں، مگر دونوں فریق کی جانب سے اس ضمن میں مشکل فیصلے کرنے کی خواہش نہیں دیکھی گئی۔
صدر اوباما کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل ہی اسرائیلی وزیر ِاعظم نیتن یاہو نے اپنی سیکورٹی کابینہ کے ساتھ میٹنگ میں فلسطین کے ساتھ جاری امن مذاکرات کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسرائیلی وزیر ِاعظم کی جانب سے یہ فیصلہ فلسطینی تنظیموں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور معاہدے کے بعد سامنے آیا تھا۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ فلسطین کی جانب سے یہ معاہدہ ’غیر مددگار‘ ثابت ہوا۔ مگر صدر اوباما نے مشرق ِ وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کے ضمن میں امریکی وزیر ِخارجہ جان کیری کی جانب سے کی گئی کوششوں کی بھی تعریف کی۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر ِاعظم نے فلسطین کی جانب سے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی صدر محمود عباس دونوں فریقوں کے درمیان جاری امن مذاکرات کے عمل کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کے حوالے سے مزید خدشات نے سر اٹھایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں موجودہ تناؤ دونوں فریق کے درمیان امن مذاکرات کی امریکی کوششوں کے لیے مزید نقصان دہ ہوگا۔
واشنگٹن میں محکمہ ِخارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اس اعلان سے ’مایوس‘ ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے امن مذاکرات کی طرف ہونے والی پیشرفت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
صدر اوباما سیئول میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات ابھی بھی دونوں فریقوں کے مفاد میں ہیں، مگر دونوں فریق کی جانب سے اس ضمن میں مشکل فیصلے کرنے کی خواہش نہیں دیکھی گئی۔
صدر اوباما کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل ہی اسرائیلی وزیر ِاعظم نیتن یاہو نے اپنی سیکورٹی کابینہ کے ساتھ میٹنگ میں فلسطین کے ساتھ جاری امن مذاکرات کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسرائیلی وزیر ِاعظم کی جانب سے یہ فیصلہ فلسطینی تنظیموں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور معاہدے کے بعد سامنے آیا تھا۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ فلسطین کی جانب سے یہ معاہدہ ’غیر مددگار‘ ثابت ہوا۔ مگر صدر اوباما نے مشرق ِ وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کے ضمن میں امریکی وزیر ِخارجہ جان کیری کی جانب سے کی گئی کوششوں کی بھی تعریف کی۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر ِاعظم نے فلسطین کی جانب سے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی صدر محمود عباس دونوں فریقوں کے درمیان جاری امن مذاکرات کے عمل کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کے حوالے سے مزید خدشات نے سر اٹھایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں موجودہ تناؤ دونوں فریق کے درمیان امن مذاکرات کی امریکی کوششوں کے لیے مزید نقصان دہ ہوگا۔
واشنگٹن میں محکمہ ِخارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اس اعلان سے ’مایوس‘ ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے امن مذاکرات کی طرف ہونے والی پیشرفت کو شدید نقصان پہنچے گا۔