عالمی بحران، عجلت میں ملوث ہونے سے احتراز لازم: اوباما

صدر اوباما کے بقول، ’ہم جتنے طاقتور ہیں، ہم طاقتور ضرور رہیں گے۔ تاہم، ہمارے وسائل اور اثر و رسوخ، لامحدود نہیں۔ اور ایک پیچیدہ دنیا میں، جو سکیورٹی مسائل ہمیں درپیش ہیں، وہ با آسانی اور فوری طور پر ازخود حل نہیں ہوجاتے‘

صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ’معاملہ جب عالمی بحرانوں میں ملوث ہونے کا ہو، تو امریکہ کی ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ عجلت سے کام نہ لیا جائے‘۔

مسٹر اوباما نے اِس بات کی نشاندہی ’قومی سلامتی کی حکمت عملی‘ پر مشتمل جاری ہونے والی ایک نئی دستاویز میں کی ہے۔

اُن کے الفاظ میں، ’امریکہ طاقتور پوزیشن سے قیادت کا مالک ہے‘۔


صدر اوباما کے بقول، ’ہم جتنے طاقتور ہیں، ہم طاقتور ضرور رہیں گے۔ تاہم، ہمارے وسائل اور اثر و رسوخ، لامحدود نہیں۔ اور ایک پیچیدہ دنیا میں، جو سکیورٹی مسائل ہمیں درپیش ہیں، وہ با آسانی اور فوری طور پر ازخود حل نہیں ہوجاتے‘۔

یہ 35 صفحات پر مشتمل دستاویز جمعے کے روز جاری کی گئی ہے۔

اِس میں پالیسی نوعیت کی کوئی اہم تبدیلیاں وضع نہیں کی گئیں۔

تاہم، اِس میں کئی ایک چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے امریکی انداز کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں داعش کے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی سے لے کر یوکرین میں روس کے خلاف اقدامات، اور چین کا اُبھر کر سامنے آنا شامل ہے۔

حکمت عملی کے تعارفی کلمات میں، صدر اوباما نے کہا ہے کہ’امریکہ کو محض فوجی طاقت پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے، اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ملک تبھی طاقتور بنتا ہے، جب ہم مشترکہ اقدام کرتے ہیں‘۔

دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے معاملے پر، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ وسیع سطح کی زمینی جنگوں سے ہٹ گیا ہے، اور ہدف بنا کر انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں اور عالمی ساجھے داروں سے مل کر مشترکہ اقدام کر رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کے خلاف ’تباہ کُن‘ دہشت گرد حملے ’کم ضرور ہوئے ہیں، لیکن اب بھی خدشات موجود ہیں‘۔

اوباما انتظامیہ کے کئی ایک چوٹی کے اہل کاروں نے اِس نئی سکیورٹی پالیسی کی حمایت میں بیانات جاری کیے ہیں۔


امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بقول، ’یہ اولولعزم اور قابل حصول‘ نوعیت کی حکمت عملی ہے۔

بقول اُن کے، ’اس میں امریکی نصب العین کی بات کی گئی ہے، جس کے ذریعے نتائج کے حصول کے لیے اتحادوں اور پارٹنرشپس کو فروغ دیا جاتا ہے اور ہمارے اوپر اعتماد اور ہماری استعداد کا امتحان ہوتا ہے‘۔

امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 2015ء کی قومی سلامتی کی حکمت عملی، بقول اُن کے، ’ہمارے ملک کو لاحق چیلنجوٕں کی واضح نشاندہی کرتی ہے،اور ساتھ ہی ساتھ، ہمیں حاصل اسٹریٹجک مواقع کو روشناس کراتی ہے۔‘

ادھر، کئی ریپیبلکن قانون سازوں نے مسٹر اوباما پر نکتہ چینی کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ عالمی خطرات سے مقابلے کا صدر کا انداز ناکافی ہے۔۔جس میں وہ داعش کے شدت پسند گروہ اور یوکرین کے تنازع کا تذکرہ کرتے ہیں۔