سنہ 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ اور ایران کے صدور کا براہِ راست رابطہ ہوا ہے۔
واشنگٹن —
امریکہ کے صدربراک اوباما نے ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے جو دونوں ممالک کے صدور کے درمیان گزشتہ 30 برسوں میں پہلا براہِ راست رابطہ ہے۔
جمعے کو 'وہائٹ ہاؤس' میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر جاری تنازع کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنا کام تیز کریں۔
صدر اوباما نے کہا کہ یہ تہران حکومت کے ساتھ اْس مسئلے کےحل کی جانب بڑھنے کا ایک مثالی موقع ہے جس نے ایران کو مغربی دنیا سے دور کر رکھا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ جوہری تنازع کے حل کی جانب پیش رفت میں کئی رکاوٹیں آئیں گی اور ان کوششوں کی کامیابی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن، امریکی صدر کے بقول، انہیں یقین ہے کہ اس تنازع کے ایک جامع حل پر اتفاقِ رائے ممکن ہے۔
ایرانی صدر نے بھی 'ٹوئٹر' پر جاری اپنے ایک پیغام میں امریکی ہم منصب کےساتھ ٹیلی فونک گفتگو کی تصدیق کی ہے۔
'ٹوئٹر' پیغام میں صدر روحانی نے کہا ہےکہ ٹیلی فونک گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے "جوہری تنازع کے جلد حل کی مشترکہ خواہش کا اظہار کیا"۔
صدر روحانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری اپنے پیغام میں بتایا کہ انہوں نے گفتگو کے اختتام پر صدر اوباما کو "آپ کے لیے آج کا دن اچھا ثابت ہو!" کہا، جس کا صدر اوباما نے "آپ کا شکریہ۔ خداحافظ" کہہ کر جواب دیا۔
ایرانی صدر کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق صدر روحانی کو امریکی صدر کی ٹیلی فون کال اس وقت موصول ہوئی جب وہ اپنا نیویارک کا دورہ مکمل کرکے وطن واپسی کے لیے ہوائی اڈے جارہے تھے۔
گزشتہ ماہ ایران کے صدر کا حلف اٹھانے والے حسن روحانی کے چھ روزہ دورہ نیویارک کا مقصد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنا تھا ۔
تاہم اس دورے کے دوران میں ایرانی صدر نے 'جنرل اسمبلی' کے اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ امریکی میڈیا کی صفِ اول کی شخصیات، سینئر سفارت کاروں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں۔
بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اپنے وزرائے خارجہ - جان کیری اور جواد ظریف – کو ہدایت کی ہے کہ وہ دونوں صدور کے درمیان ہونے والی گفتگو کی روشنی میں جوہری تنازع کے حل کی سفارتی کوششوں کو آگے بڑھائیں۔
سنہ 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ اور ایران کے صدور کا براہِ راست رابطہ ہوا ہے۔ اس سے قبل جمعرات کو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے بھی دیگر عالمی طاقتوں کے نمائندوں کی موجودگی میں ملاقات کی تھی جس سے ظاہر ہوتا کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے جمی برف کچھ پگھلی ہے۔
جمعے کو 'وہائٹ ہاؤس' میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر جاری تنازع کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنا کام تیز کریں۔
صدر اوباما نے کہا کہ یہ تہران حکومت کے ساتھ اْس مسئلے کےحل کی جانب بڑھنے کا ایک مثالی موقع ہے جس نے ایران کو مغربی دنیا سے دور کر رکھا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ جوہری تنازع کے حل کی جانب پیش رفت میں کئی رکاوٹیں آئیں گی اور ان کوششوں کی کامیابی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن، امریکی صدر کے بقول، انہیں یقین ہے کہ اس تنازع کے ایک جامع حل پر اتفاقِ رائے ممکن ہے۔
ایرانی صدر نے بھی 'ٹوئٹر' پر جاری اپنے ایک پیغام میں امریکی ہم منصب کےساتھ ٹیلی فونک گفتگو کی تصدیق کی ہے۔
'ٹوئٹر' پیغام میں صدر روحانی نے کہا ہےکہ ٹیلی فونک گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے "جوہری تنازع کے جلد حل کی مشترکہ خواہش کا اظہار کیا"۔
صدر روحانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری اپنے پیغام میں بتایا کہ انہوں نے گفتگو کے اختتام پر صدر اوباما کو "آپ کے لیے آج کا دن اچھا ثابت ہو!" کہا، جس کا صدر اوباما نے "آپ کا شکریہ۔ خداحافظ" کہہ کر جواب دیا۔
ایرانی صدر کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق صدر روحانی کو امریکی صدر کی ٹیلی فون کال اس وقت موصول ہوئی جب وہ اپنا نیویارک کا دورہ مکمل کرکے وطن واپسی کے لیے ہوائی اڈے جارہے تھے۔
گزشتہ ماہ ایران کے صدر کا حلف اٹھانے والے حسن روحانی کے چھ روزہ دورہ نیویارک کا مقصد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنا تھا ۔
تاہم اس دورے کے دوران میں ایرانی صدر نے 'جنرل اسمبلی' کے اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ امریکی میڈیا کی صفِ اول کی شخصیات، سینئر سفارت کاروں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں۔
بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اپنے وزرائے خارجہ - جان کیری اور جواد ظریف – کو ہدایت کی ہے کہ وہ دونوں صدور کے درمیان ہونے والی گفتگو کی روشنی میں جوہری تنازع کے حل کی سفارتی کوششوں کو آگے بڑھائیں۔
سنہ 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ اور ایران کے صدور کا براہِ راست رابطہ ہوا ہے۔ اس سے قبل جمعرات کو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے بھی دیگر عالمی طاقتوں کے نمائندوں کی موجودگی میں ملاقات کی تھی جس سے ظاہر ہوتا کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے جمی برف کچھ پگھلی ہے۔