اقوام متحدہ: اوباما کا عالمی سیاست کے بارے میں تفصیلی بیان

صدر براک اوباما نے کثیر ملکی تجارت اور عالمی ادارے کے ساتھ اپنی ٹھوس حمایت کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ سے اپنے حتمی خطاب میں، اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم اب تعاون اور یکجہتی کے بہتر معیار کا انتخاب کرکے اُسے اختیار کرسکتے ہیں؛ یا پھر ہم ایسی دلدل میں پھنس کر رہ جائیں گے جو عالمی انتشار کا شکار ہے اور بی الآخر تنازعات میں الجھے ملکوں، قبیلے، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کا حصہ بن جائیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’میں یہ بات بتا دوں کہ آج ہمیں آگے بڑھنا چاہیئے، ناکہ پیچھے‘‘۔

اوباما نے، جو جنوری میں اپنی میعاد مکمل کریں گے، اپنے آٹھ برس کے دورہٴ صدارت میں حاصل کردہ پیش رفت کا ذکر کیا، جن میں شدید غربت کو کم کرنا، ایرانی جوہری تنازع کو حل کرنا، کیوبا کے ساتھ تعلقات کی بحالی، اور موسیماتی تبدیلی کے معاملے پر بین الاقوامی سمجھوتے پر متفق ہونا شامل ہیں۔
بقول اُن کے ’’یہ انتہائی اہم کام ہے، جِس کے نتیجے میں ہمارے لوگوں کی زندگی میں حقیقی تبدیلی آئی، اور ایسا نہ ہوتا، اگر ہم مل کر اس کی جہدوجہد نہ کرتے‘‘۔

تاہم، اُنھوں نے خبردار کیا کہ بین الاقوامی ضابطہٴ کار میں شدید دراڑیں پڑ چکی ہیں، جن کے باعث، بڑی سطح کا مہاجرین کا بحران، معاشی انتشار اور عدم تحفظ نظر آتا ہے۔

بقول اُن کے، ’’ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری حکومتیں صحافیوں کی آواز کو دبا رہی ہیں، اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جا رہا اور اطلاعات کی ترسیل پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ نوجوانوں کے ذہن پر وار کرنے، کھلے اقدار والے معاشروں کے لیے خطرات پیدا کرنے اور بے گناہ تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے لیے دہشت گرد نیٹ ورک سماجی میڈیا کا استعمال کرتے ہیں‘‘۔


شام کے بحران پر اُنھوں نے کہا کہ اس کا بالآخر کوئی فوجی حل موجود نہیں، اور کہا ہے کہ سفارتی حل تلاش کیا جانا چاہیئے۔

اوباما نے متنبہ کیا کہ دنیا میں ’’انتہا پسندی کے شعلے بھڑکتے رہیں گے‘‘، تاہم ’’ دیوار تعمیر کرنے سے دنیا کے مسائل حل نہیں ہوں گے‘‘، ایسا کرنے سےمعاشرے پر پڑنے والے اثرات سے نہیں بچا جا سکتا۔

یوکرین میں مداخلت کرنے پر صدر نے روس کو ہدف تنقید بنایا؛ اور جوہری محاذ پر بین الاقوامی برادری کی پرواہ نہ کرنے پر شمالی کوریا پر نکتہ چینی کی۔

اور اقوام متحدہ میں، اُن کی میزبانی میں منگل کی شام منعقد ہونے والے سربراہانِ ممالک کے چوٹی کے اجلاس کے بارے میں اُنھوں نے ملکوں پر زور دیا کہ وہ مہاجرین کے لیے مزید کام کریں۔

صدر نے کہا کہ ’’ذرہ سوچیں اگر ہمارے ساتھ کوئی ناقابلِ بیان معاملہ ہوتا ہے، تو اس سے ہمارے خاندان، ہمارے بچوں پر کیا اثر پڑے گا‘‘۔

اوباما نے تقریباً 45 منٹ تک خطاب جاری رکھا۔ روایتی طور پر، امریکہ دوسرے نمبر پر مباحثے میں حصہ لیتا ہے، لیکن صدر کی ہال میں تاخیر سے آمد ہوئی؛ اور جنرل اسمبلی کے صدر نے ، اُن کی جگہ شاڈ کے صدر ادریس ڈیبی کو بولنے کی دعوت دی۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے آخری بار سالانہ اجلاس کا آغاز کیا۔ وہ ایک عشرے بعد اس سال کے آخر میں یہ عہدہ چھوڑیں گے۔ اُنھوں نے شام میں تنازع کے خاتمے پر زور دیا۔

بان نے شام کے صدر بشار الاسد کو خاص طور پر نشانہ بنایا، جب پیر کو انسانی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے قافلے پر حملہ ہوا، جس میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔

اس حملے کے نتیجے میں، اقوام متحدہ امدادی قافلے معطل کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

شام کے صدر بشارالاسد کے بارے میں بان نے کہا کہ ’’ایک مدت سے سیاسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تشدد اور بیکار حکمرانی کے اتنے بڑے دور کے بعد، شام کا مستقبل ایک ہی آدمی کے سہارے نہیں رہنا چاہیئے‘‘۔