گذشتہ ہفتے ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ گرائے جانے پر، صدر براک اوباما نے پیر کے دِن روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ افسردگی کا اظہار کیا، اور اُنھوں نے روس پر زور دیا کہ اس واقع پر ترکی کے ساتھ تناؤ میں کمی کی جائے۔
دونوں سربراہان نے پیرس میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس سے باہر 30 منٹ تک ملاقات کی۔
ترکی نے کہا ہے کہ اُس کی فضائی حدود میں داخل ہونے پر لڑاکا طیارہ مار گرایا گیا، جس میں ایک روسی پائلٹ ہلاک جب کہ بعدازاں بچاؤ کی کارروائی کے دوران عملے کا ایک رُکن ہلاک ہوا۔ پیوٹن نے جوابی اقدام کے طور پر ترکی کے خلاف معاشی پابندیاں لگائی ہیں۔
اوباما اور پیوٹن نے شام میں جاری لڑائی پر تفصیلی بات کی، اور امریکہ اور روس نے بتایا ہے کہ دونوں فریق ساڑھے چار برس سے جاری اس تنازع کے سیاسی حل کی ضرورت پر اتفاق کیا، جو صدر بشار الاسد کو ہٹانے کی جستجو کرنے والےباغی گروپ اور حکومت کی حامی فوجوں کے درمیان ہو رہا ہے۔
سیاسی حل
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ سربراہان نے ویانا میں کے مذاکرات میں ’پیش رفت کی ضرورت‘ پر گفتگو کی، جس کا مقصد جنگ بندی کا حصول اور سیاسی حل پر پہنچنا ہے۔ تاہم، اوباما اور پیوٹن اسد کی قسمت کے بارے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔
اوباما نے پیوٹن سے کہا کہ ایک عبوری دور کےسمجھوتے کے حصے کے طور پر اسد کو اقتدار سے ہٹنا ہوگا، جب کہ روس اسد مخالف باغیوں پر فضائی بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ اوباما نے پیوٹن پر اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ روس شام میں داعش کے اہداف کو نشانہ بنائے، ناکہ اسد کے مخالف گروپوں کے خلاف حملے کیے جائیں۔
اوباما نے روسی رہنما پر یہ اہمیت واضح کی کہ مشرقی یوکرین میں روس کے حامی علیحدگی پسندوں اور یوکرین کی افواج کے مابین تنازعے کو ختم کیا جائے، اور 2015ء کے اوائل میں طے ہونے والے مِنسک جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے۔
امریکی سربراہ نے کہا کہ جنگ بندی پر عمل درآمد کی صورت میں روس کے خلاف معاشی تعزیرات میں نرمی برتی جا سکتی ہے۔