ترکی کے وزیرِ اعظم احمد داؤد اولو نے کہا ہے کہ ان کا ملک اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے روسی طیارے کو مار گرانے پر ماسکو سے معافی نہیں مانگے گا۔
پیر کو برسلز میں نیٹو کے سربراہ جینز اسٹالٹنبرگ کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیرِ اعظم نے کہا کہ روسی طیارہ گرا کر ترک فوج نے اپنی سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری پوری کی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ روس ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے گا جس کا اعلان واقعے کے بعد روسی صدر ولادی میر پیوتن نے کیا تھا۔
ان پابندیوں کے تحت روس نے ترکی سے بعض اشیا کی درآمدات اور روس میں کام کرنے والے ترک باشندوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر پابندی عائد کرنے اور روس میں کام کرنے والی ترک کمپنیوں کا دائرہ کار محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
روسی حکومت نے اپنے شہریوں کو سیاحت کی غرض سے ترکی کا سفر نہ کرنے کی بھی ہدایت کی ہے جس کے جواب ترک حکام نے بھی اپنے شہریوں کو روس کے "غیر ضروری سفر" سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔
اسی اثنا میں کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکووف نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ صدر پیوتن پیرس میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس کےد وران اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوان سے ملاقات نہیں کریں گے۔
صدر ایردوان نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں پیرس میں صدر پیوتن سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ، ان کے بقول، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی لائی جاسکے۔
ترک فضائیہ نے منگل کو شام میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے پر بمباری کرنے والے ایک روسی طیارے کو ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر مار گرایا تھا۔
روسی طیارہ ترکی کی سرحد سے ایک کلومیٹر دور شامی علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا تھا۔
واقعے کے بعد سے روس اور ترکی کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچی ہوئی ہے اور دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان الفاظ کی جنگ اور سخت بیان بازی جاری ہے۔
واقعے سے متعلق دونوں ملکوں کا متضاد موقف سامنے آیا ہے۔ روسی حکام کا اصرار ہے کہ طیارے نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جب کہ ترک حکام کا کہنا ہے کہ مار گرانے سے قبل روسی طیارے کو کئی بار ترکی کی فضائی حدود سے نکل جانے کو کہا گیا تھا۔
روسی حکومت کا کہنا ہے کہ طیارہ ترکی سے متصل شام کے علاقے میں شدت پسند تنظیم داعش کےٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
لیکن ترک صدر رجب طیب ایردوان کا موقف ہے کہ شام کے مذکورہ علاقے میں داعش کا کوئی وجود نہیں اور وہاں صرف ترکمان نسل کے "ہمارے بہنیں اور بھائی" آباد ہیں۔