ارشد شریف کے ساتھ تعلق دو دہائیوں سے زائد کا رہا البتہ دوستی اس وقت شروع ہوئی جب 2008 میں پہلی مرتبہ پاکستان کی فوج نے صحافیوں کو وار زون میں ساتھ لے جانے کا تجربہ کیا۔
فوج کا شعبۂ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر اس سلسلے میں جن دو صحافیوں کو پہلی مرتبہ باجوڑ میں جاری ’آپریشن شیردل‘ کے مشاہدے کے لیے لے کر گیا ان میں ایک میں اور دوسرے ارشد شریف تھے ۔ میں ان دنوں ’جیو نیوز‘ کے ساتھ نمائندۂ خصوصی برائے دفاعی امور کے طور پر منسلک تھا اور ارشد شریف ’ڈان نیوز‘ کے لیے کام کررہے تھے۔
ارشد کے ساتھ گپ شپ بہت پرانی تھی۔ اس لیے جب آئی ایس پی آر نے ایک سادہ کاغذ پر بیان حلفی لکھ کر دینے کے لیے کہا کہ آپریشن کے علاقے میں کسی نقصان کی صورت میں وہ ذمے دار نہیں ہوں گے تو میں نے سب سے پہلا فون ارشد شریف کو کیا اور کہا:" یار یہ تو ہماری ذمے داری بھی نہیں لے رہے۔"
اس پر ارشد نے ہنستے ہوئے کہا تھا: "ہماری زندگی کی ذمے داری کون لیتا ہے؟ خیر ہے، لکھ کر دے دو شاید اچھی خبر ہی مل جائے۔"
آج جب ارشد شریف کے اچانک دنیا سے جانے کی خبر ملی تو ان سے جڑی بہت سی یادوں نے دل و دماغ پر یلغار کردی۔
اچھی اور بڑی خبر کی تلاش میں اپنی زندگی کو خطرات میں ڈالنے والے ارشد شریف کے ساتھ بیسیوں سفر کیے۔ کتنے ہی آپریشن ایریاز میں ہم بے خوف و خطر گھومتے رہے، گھنٹوں گپ شپ لگتی تھی۔ لیکن جیسے ہی فارغ وقت ملتا ارشد اپنے کاندھے سےلٹکے بیگ سے کتاب نکالتا اور پڑھنا شروع کردیتا۔
آپریشن’شیر دل‘ کے دوران اس وقت کے لیفٹننٹ کرنل اور آج لیفٹننٹ جنرل آصف غفور سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ان ملاقاتوں میں شامل کرنل نعمان بعد میں بریگیڈیئر بنے اور پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف بننے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) میں بھی شامل ہوئے۔
SEE ALSO: ارشد شریف کی ہلاکت: کینیا کی پاکستان کو تحقیقاتی رپورٹ جلد حوالے کرنے کی یقین دہانیاس وقت کے آپریشن کمانڈر میجرجنرل اور بعد میں لیفٹننٹ جنرل طارق خان سے بھی ہماری یہیں ملاقات ہوئی۔ اس دوارن آپریشن سے متعلق ہم اپنے اپنے اداروں کے لیے بڑی بڑی خبریں ان علاقوں سے رپورٹ کرتے رہے۔
ارشد نے اپنے کرئیر کا آغاز اس وقت کیا جب وہ ماسٹرز کررہا تھا۔ وہ انگریزی میگزین ’پلس‘ میں لکھنے کے بعد 1999 میں انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ اور 2001 میں ڈان نیوز کے ساتھ منسلک ہوگئے جہاں کئی تحقیقاتی خبریں ان کے کریڈ ٹ پر تھیں۔
اس کے بعد 2011 میں انہیں ڈان نیوز ٹی وی چینل کا بیورو چیف بنا دیا گیا۔ اس کے بعد ارشد کچھ عرصے کے لیے آج ٹی وی اور پھر دنیا ٹی وی کے ساتھ بیورو چیف کے طور پر منسلک رہے۔
اس کے بعد وہ اے آر وائی ٹی وی کے ساتھ بطور اینکر منسلک ہوئے اور پروگرام" پاور پلے' کے کئی سال تک میزبان رہے۔ اس دوران ان پر یک طرفہ خبریں کرنے کے الزامات بھی لگے لیکن ان کی تحقیقاتی خبروں کی وجہ سے کئی اداروں اور شخصیات کے خلاف باقاعدہ قانونی تحقیقات کا آغاز بھی ہوا۔
بعد میں فیلڈ رپورٹنگ کرنے والے ارشد شریف اینکر پرسن بن گئے اور اسٹوڈیو ان کی صحافت کا میدان بن گیا۔میں خبر کی تلاش کرنے والا رپورٹر ہی رہا لیکن ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں ٹوٹا۔
ارشد جب بھی ملتا اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ہوتی تھی۔ ٹی وی پر اکثر غصے میں آجانے والا ارشد شریف دوستوں کے درمیان معصوم سے چہرہ بنا کر ان کی باتیں سنتا رہتا۔ اگر کوئی مذاق میں کوئی تلخ بات کر بھی جاتا تو کبھی ردّعمل نہیں دیتا تھا۔
ارشد شریف نے تین شادیاں کیں جن میں سے ایک خاندان میں ہوئی جس سے ان کے پانچ بچے ہیں۔ ارشد نے دو مزید شادیاں کیں اور یہ دونوں خواتین صحافی ہیں۔
سال 2011 میں ان کے والد، نیوی کے سابق کمانڈر محمد شریف، حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال کرگئے۔ ان کے بھائی میجراشرف شریف جو اس وقت بنوں میں تعینات تھے،والد کے انتقال کی خبر سن کر اسلام آباد آرہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی سڑک سے اتر کر ایک درخت سے ٹکرا گئی اور موقعے ہی پر ان کی موت واقع ہوگئی۔
ارشد شریف نے والد اور بھائی کی ایک ہی وقت میں تدفین کی۔ خاندان میں یہ صرف دو ہی بھائی تھے۔ لواحقین میں ارشد کی بزرگ والدہ ، تین بیوائیں اور پانچ بچے شامل ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ارشد شریف فوج کی جانب جھکاؤ رکھنے والے صحافی کی پہچان رکھتے تھے۔ انہیں عمران خان کا بھی حامی سمجھا جاتا تھا اور وہ جس چینل یعنی ’اے آر وائی‘ سے وابستہ تھے اس کے بارے میں بھی یہی تاثر تھا۔
اسی وجہ سے جب عمران خان کی حکومت تبدیل ہوئی تو ارشد شریف کا ایک نیا رخ دیکھنے میں آیا جس میں وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ صحافی بن کر سامنے آئے۔ ایک عرصہ سے ان کی ٹوئٹس اور ویڈیوز میں وہ لگاتار اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کررہے تھے۔
میری ان سے آخری ملاقات ان کی دبئی روانگی سے کچھ دن پہلے ان کے دفتر کے باہر ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں بھی میں نے ان سے ہنستے ہوئے کہا :" بھائی تھوڑا دھیان کیا کرو۔" اس پر ارشد نے زور دار قہقہہ لگایا اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا :"چھوڑیں سر خیر ہے۔"