پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین فور میں ہونے والے دھماکے کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔اس سلسلے میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی ہے۔
ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس نے چیف کمشنر اسلام آباد سے آٹھ رکنی جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی تھی۔ جے آئی ٹی کی سربراہی ایس ایس پی سی ٹی ڈی ذیشان حیدر کریں گے جب کہ ان کے ساتھ اسلام آباد پولیس کے تین ڈی ایس پی اور حساس اداروں کے افسران بھی شامل ہوں گے۔
واضح رہے کہ جمعے کو وفاقی دارالحکومت میں پولیس چیکنگ کے دوران دھماکے میں ایک پولیس اہلکار اور گاڑی میں سوار دو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پولیس نے دھماکے کو خود کش قرار دیا تھا۔
ادھر دارالحکومت میں ہونے والی اس کارروائی کے بعد پنجاب کے مختلف علاقوں میں سی ٹی ڈی نے آپریشن شروع کردیے ہیں اور حالیہ کارروائیوں میں کالعدم تنظیموں کے سات عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
ترجمان سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق گرفتار افراد کی شناخت خالد محمود، محسن وقار، محمد عثمان، شیر محمد، لقمان رفیق اور فاروق کے نام سے ہوئی ہے۔ان کے قبضے سے بارودی مواد ، اسلحہ اور ممنوعہ لٹریچر برآمد کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: اسلام آباد: سیکیورٹی چیکنگ کے دوران خودکش دھماکا، پولیس اہلکار سمیت تین افراد ہلاکسی ٹی ڈی کے بقول گرفتار افراد صوبے کے حساس شہروں میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں ملوث ہیں۔
ترجمان کے مطابق رواں ہفتے مختلف شہروں میں 443 کومبنگ آپریشن کیے گئے اور ان کارروائیوں کے دوران 19 ہزار 630 مشتبہ افراد کو چیک کیا گیا جب کہ 90 افراد کو کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے پر گرفتار کیا گیا۔
سیف سیٹی کیمروں کی مدد سے گاڑی کی شناخت
اسلام آباد پولیس کے محکمۂ انسداد دہشت گردی کی دیگر اداروں کی مدد سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے جس میں سیف سٹی کیمروں کی مدد سے یہ پتا لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ گاڑی کہاں سے چلی اور اس میں کون شخص کہاں سے سوار ہوا۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی ادارے ٹیکسی ڈرائیور کے بیٹے تک پہنچ گئے ہیں اور اب تک کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ خودکش حملہ آور نے ٹیکسی کرائے پر لی تھی۔
ادھر پولیس نے ابتدائی طور پر گاڑی میں ایک خاتون کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اب پولیس کا کہنا ہے کہ گاڑی میں خاتون کی موجودگی کے ثبوت نہیں ملے۔گاڑی کے ٹکڑوں اور دھماکے کی جگہ قریبی علاقے میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں بھی ڈرائیور کے ساتھ ایک شخص پیچھے بیٹھا نظر آ رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ حملہ آور نے چادر اوڑھ رکھی ہو اور اسی چادر کی وجہ سے دیکھنے والوں کو خاتون کا گماں ہوا ہو، تاہم اس حوالے سے حتمی نتائج حاصل کرنے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
ذرائع کے مطابق جائے وقوعہ سے ایک موبائل فون بھی ملا ہے جسے قبضے میں لے لیا گیا ہے۔
پولیس اہلکار کے لیے تمغہ شجاعت
دوسری جانب اس واقعہ میں مارے جانے والے پولیس اہلکار عدیل حسین کے لیے حکومتِ پاکستان نے تمغہ شجاعت کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ غیر معمولی جرات و بہادری اور فرض شناسی کے مظاہرے پر اسلام آباد پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل عدیل حسین کو ʼتمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدیل حسین کی بیوہ کو اسلام آباد پولیس میں بھرتی کیا جائے گا۔بیوہ کو فوری طور پر مکمل ''شہدا پیکج ''دے رہے ہیں۔اس پیکج کے تحت ایک کروڑ 65لاکھ روپے نقد ادا کرنے کے علاوہ ایک پلاٹ بھی دیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں اس واقعے کے بعد سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے اور تمام اجتماعات پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اسلام آباد میں دفعہ 144 اگلے پندرہ دن کے لیے نافذ کردی گئی ہے اور بلدیاتی انتخابات کے سیاسی اجتماعات سمیت ہر قسم کی سیاسی اورسماجی سرگرمیوں کو روکنےکا حکم دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے داخلی راستوں پر پولیس کے ناکوں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ اندروں شہر سرپرائز ناکے لگانے اور مشکوک گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی چیکنگ کا عمل بڑھا دیا گیا ہے۔