غزہ کے واقعات کی آزادانہ چھان بین ہونی چاہئیے: اردوان

  • مدثرہ منظر

استنبول

اسلامی ممالک میں تعاون کی تنظیم، 'او آئی سی' کے موجودہ قائد ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے تنظیم کا ایک غیر معمولی اجلاس طلب کیا جس میں 55 مسلم ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔

یہ اجلاس اس واقعے کے بعد طلب کیا گیا جس میں اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے امریکی اقدام کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہزاروں فلسطینیوں پر اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے60 فلسطینی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔

او آئی سی کے اجلاس میں شریک ممالک نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے سعودی عرب میں سیکیورٹی کے امور کے تجزیہ کار چوہدری نعمان ظفر نے کہا ہے کہ ''آزادانہ چھان بین کا مطالبہ فطری، مگر اِن اندیشوں کو جنم دیتا ہے کہ اس پر عمل کیسے ہوگا، کیونکہ خود مسلم ممالک کے باہمی اختلافات بہت گہرے ہیں''۔

انہوں نے کہا کہ ''سب سے زیادہ شدید اختلافات ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہیں جو کسی بھی تجویز پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایران چاہتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام تعلقات ختم کئے جائیں، جبکہ اس کے برعکس سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں بہتری کی کوششیں ہو رہی ہیں''۔

18مئی کو استنبول ہی میں 'او آئی سی' کے وزرائے خارجہ کا بھی اجلاس ہوا۔

ترکی کے فعال کردار کے جواب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نے ترک صدر رجب طیب اردوان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ، ان کے الفاظ میں، ''دہشت گرد تنظیم حماس کے سب سے بڑے حامی ہیں، چنانچہ اسرائیل کو اخلاقیات کا سبق نہ دیں''۔ ادھر، اردوان نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ''مسلم ممالک کو متحد ہو کر اسرائیل کو پیغام دینا ہوگا''۔

او آئی سی کے اس اجلاس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی شرکت کی اور زور دیا کہ غزہ کے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی اسرائیل اور فلسطینی تنازعے سے متعلق پہلے سے موجود قراردادوں پر عمل درآمد کروایا جائے۔

اگرچہ ماضی میں اسرائیل کے لئے کسی بھی تنبیہی قرارداد کو امریکہ نے سلامتی کونسل میں ویٹو کیا ہے۔ تاہم، ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ ''امریکہ کو اب بھی قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا اور قصوروار کون ہے؟ ذمے داری کس کی ہے؟ اس کا تعین کرنا ہوگا''۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''تنظیم کی سفارشات پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے، او آئی سی کو محض ایک سیاسی نوعیت کی تنظیم سے بڑھ کر اختیارات دینا ہوں گے''۔

چوہدری نعمان ظفر کا بھی کہنا تھا کہ ''اب رسمی کاروائیوں کے بجائے عملی طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، عملی اقدامات کی راہ میں اب بھی مسلم ممالک کے آپس کے اختلافات اور خارجہ پالیسی کا تنوع ہی رکاوٹ ہے''۔

سوال اب بھی یہی ہے آیا مسلم ممالک کبھی متحد ہو سکیں گے؟ کیا اب بھی فلسطینی، اسرائیل کے ساتھ تنازعے کے 'دو ریاستی حل' کے لئے دنیا سے امید قائم رکھ سکتے ہیں؛ جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ 'دو ریاستی حل' کا امکان تقریباً دم توڑ چکا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

OIC Palestinians