پاکستان کے وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے مسلمان ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کے انسانی حقوق کے کمیشن کے وفد سے ملاقات کی۔
’اردو سروس‘ کی بہجت جیلانی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کمیشن کے ساتھ اپنی ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ کشمیر کے لئے پاکستان کے رابطہ گروپ نے او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن کے ارکان کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی ’’بڑے پیمانے پر‘‘ مبینہ خلاف ورزیوں کی چھان بین کرنے کو کہا تھا۔
اس کے بعد، کمیشن نے جدہ، سعودی عرب میں بھارت کے سفارتخانے کو درخواست دی اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دورے کی اجازت چاہی، جس کا بھارت نے جواب نہیں دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ کمیشن نے پاکستان سے رابطہ کیا، ’’تو ہم نے انہیں آنے کی دعوت دی‘‘۔ ․
اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے، مشیر خارجہ امور نے کہا کہ انھوں نے وفد کو کشمیر کے مسئلے کا پس منظر بتاتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں بھی بتایا، جن کی، بقول اُن کے ’’بھارت نے کبھی پاسداری نہیں کی‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ کمیشن پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے دورے پر ہے، جہاں ان کو بریفنگ دی گئی اور ان کی ملاقات آل پاکستان حریت کانفرنس کے نمائندوں سے ہوئی۔ وفد کو پناہ گزیں کیمپوں کا دورہ کرایا گیا، جس کے بعد، اب وہ اپنی رپورٹ مرتب کریں گے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ رپورٹ اقوام متحدہ میں اور اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کو پیش کی جائیگی ’’تو، ظاہر ہے، اس کا نوٹس لیا ہی جائیگا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’بھارت نہ تو انسانی حقوق کی تنظیموں اور نہ ہی غیر ملکی میڈیا کو اپنے زیر انتظام کشمیر میں داخلے کی اجازت دیتاہے کہ وہ صورتحال کا جائزہ لے سکیں بلکہ کبھی دہشت گردی کی بات کرکے اور کبھی سرحد پر اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان نے گزشتہ برس سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا ہے اور اب اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مسئلہٴ کشمیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور اس کا کوئی حل نکلنا چاہئے‘‘۔
بھارت نہ تو انسانی حقوق کی تنظیموں اور نہ ہی غیر ملکی میڈیا کو اپنے زیر انتظام کشمیر میں داخلے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ صورتحال کا جائزہ لے سکیں؛ بلکہ، کبھی دہشت گردی کی بات کرکے اور کبھی سرحد پر مبینہ اشتعال انگیزی کے ذریعے کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔