سوئٹزرلینڈ نیشنل اولمپک کمیٹی کے سربراہ مورئل ہوفر کہتے ہیں کہ صرف ایک فرد کو اچھا کھلاڑی بنانے میں 14 سالہ کی عرق ریزی اور تقریباً ساڑھے تین لاکھ ڈالر سالانہ کی ضرورت ہوتی ہے
جنوبی افریقہ لندن اولمپکس میں کوئی میڈل جیتنے والا واحد افریقی ملک ہے ۔ اس نے اب تک تین میڈل جیتے ہیں۔ آدھے سے زیادہ سب صحارہ ممالک نے کبھی سونے کا تمغہ حاصل نہیں کیا اور بہت سے افریقی ممالک ایسے ہیں جن کے حصے میں آج تک ایک بھی میڈل نہیں آیا۔
کشتی رانوں کی ایک ٹیم بڑے جتن کے بعد جنوبی افریقہ کے لیے سونے کا تیسرا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔جس سے جنوبی افریقہ ، اس براعظم میں یہ اعزاز حاصل کرنے والا واحد ملک بن گیا ہے۔
39 افریقی ممالک نے کبھی کسی کھیل میں سونے کا میڈل حاصل نہیں کیا۔ جب کے ان میں سے 28 نے کبھی بھی کوئی بھی میڈل نہیں جیتا۔اس فہرست میں چھوٹے، غریب، فوجی انقلابوں کا نشانہ بننے والے اور تباہ حال ملک شامل ہیں۔
لندن اولمپکس میں مصر نے اپنی تاریخ میں پہلی بار منگل کو چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔
باقی ماندہ افریقی ممالک کے کھلاڑیوں کی چاندی کے تمغے کے میعار سے بھی کم تر کارکردگی کو وہاں کے سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کھلاڑیوں کی تربیت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ نیشنل اولمپک کمیٹی کے سربراہ مورئل ہوفر کہتے ہیں کہ صرف ایک فرد کو اچھا کھلاڑی بنانے میں 14 سالہ کی عرق ریزی اور تقریباً ساڑھے تین لاکھ ڈالر سالانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
گولڈن کوسٹ کے نام سے اپنی شناخت رکھنے والی برطانیہ کی ایک سابقہ کالونی گھانا کے حصے میں آج تک سونے کا کوئی میڈل نہیں آیا۔
گھانا کی ٹیم کے ترجمان ایراسموس کواؤکہتے ہیں کہ اس سال ہماری ٹیم سیاست کی نذر ہوگئی۔
20 لاکھ نفوس پر مشتمل ایک اور افریقی ملک بوٹسوانا کی کوئی سڑک گولڈ میڈل کی طرف نہیں جاتی ۔ٹیم کے ترجمان کا کہناہے کہ آبادی کی کمی اور تربیتی سہولتوں کا فقدان میڈل جیتنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
لیکن امید کا دروازہ کھلا ہے۔ کینیا ایک غریب افریقی ملک ہے لیکن بیجنگ اولمپکس میں اس نے 14 تمغے جیتے تھے۔ٹیم کے ترجمان پیٹر ایگونی کہتے ہیں کہ اس کا کامیابی کاراز یہ کہ ہمارے کھلاڑی منظم اور نوجوان ہیں۔
کشتی رانوں کی ایک ٹیم بڑے جتن کے بعد جنوبی افریقہ کے لیے سونے کا تیسرا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔جس سے جنوبی افریقہ ، اس براعظم میں یہ اعزاز حاصل کرنے والا واحد ملک بن گیا ہے۔
39 افریقی ممالک نے کبھی کسی کھیل میں سونے کا میڈل حاصل نہیں کیا۔ جب کے ان میں سے 28 نے کبھی بھی کوئی بھی میڈل نہیں جیتا۔اس فہرست میں چھوٹے، غریب، فوجی انقلابوں کا نشانہ بننے والے اور تباہ حال ملک شامل ہیں۔
لندن اولمپکس میں مصر نے اپنی تاریخ میں پہلی بار منگل کو چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔
باقی ماندہ افریقی ممالک کے کھلاڑیوں کی چاندی کے تمغے کے میعار سے بھی کم تر کارکردگی کو وہاں کے سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کھلاڑیوں کی تربیت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ نیشنل اولمپک کمیٹی کے سربراہ مورئل ہوفر کہتے ہیں کہ صرف ایک فرد کو اچھا کھلاڑی بنانے میں 14 سالہ کی عرق ریزی اور تقریباً ساڑھے تین لاکھ ڈالر سالانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
گولڈن کوسٹ کے نام سے اپنی شناخت رکھنے والی برطانیہ کی ایک سابقہ کالونی گھانا کے حصے میں آج تک سونے کا کوئی میڈل نہیں آیا۔
گھانا کی ٹیم کے ترجمان ایراسموس کواؤکہتے ہیں کہ اس سال ہماری ٹیم سیاست کی نذر ہوگئی۔
20 لاکھ نفوس پر مشتمل ایک اور افریقی ملک بوٹسوانا کی کوئی سڑک گولڈ میڈل کی طرف نہیں جاتی ۔ٹیم کے ترجمان کا کہناہے کہ آبادی کی کمی اور تربیتی سہولتوں کا فقدان میڈل جیتنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
لیکن امید کا دروازہ کھلا ہے۔ کینیا ایک غریب افریقی ملک ہے لیکن بیجنگ اولمپکس میں اس نے 14 تمغے جیتے تھے۔ٹیم کے ترجمان پیٹر ایگونی کہتے ہیں کہ اس کا کامیابی کاراز یہ کہ ہمارے کھلاڑی منظم اور نوجوان ہیں۔