اومان نے پیر کے روز کہا ہے کہ سلطنت کیوبا میں واقع گوانتانامو بے کے امریکی فوجی حراستی مرکز سے رہائی پانے والے 10 قیدیوں کو قبول کر رہی ہے۔
اِن قیدیوں کے نام اور شہریت کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
جب جنوری 2009ء میں امریکی صدر براک اوباما نے عہدہٴ صدارت سنبھالا تھا، اُنھوں نے جنوب مشرقی کیوبا میں واقع اِس قیدخانے کو بند کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حراستی مرکز امریکی اقدار کی غمازی نہیں کرتا، چونکہ وہاں بہت سارے قیدی برسوں سے بغیر مقدمہ چلائے بند ہیں، جن میں سے چند کو اذیت تک دی گئی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ آخری لمحات میں بھی اوباما انتظامیہ مزید قیدیوں کو رہا کر سکتی ہے۔
تاہم، گذشتہ ہفتے، امریکی وزیر خارجہ ایش کارٹر نے کہا تھا کہ اُنھیں گوانتانامو کے مزید قیدیوں کی رہائی کی توقع نہیں ہے۔
منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ گوانتانامو کو بند نہیں کریں گے، چونکہ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ ’’وہاں بدنام قسم کے مزید قیدیوں کو بند رکھا جائے‘‘۔
ایک طویل مدت سے امریکہ نے گوانتانامو ’لیز‘ پر لیا ہوا ہے، جو فائڈل کاسٹرو کے کمیونسٹ انقلاب سے پہلے کی بات ہے، جسے 2001ء میں سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں حراستی مرکز میں بدل دیا گیا، جب نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے۔ اِس کیمپ میں ایسے قیدیوں کو بند رکھنے کا ارادہ تھا جو القاعدہ سے لڑائی کے دوران یا مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں دیگر دہشت گرد گروہوں سے تعلق رکھتے ہوں، جنھیں امریکہ یا اُس کے اتحادیوں نے پکڑا ہو۔
اپنے عروج کے زمانے میں، گوانتانامو میں کُل 779 قیدی تھے؛ جب بش نے اوباما کی حکومت کو اقتدار منتقل کیا اُس وقت یہ تعداد کم ہوکر تقریباً 500 رہ گئی تھی۔ اوباما قیدیوں کی تعداد میں کمی لائے، جن میں سے کچھ قیدیوں کو مقدمہ چلانے کے لیے اُن کے آبائی ملکوں کے حوالے کیا گیا؛ جب کہ دیگر کو کسی تیسرے ملک کی جانب روانہ کیا گیا، جن کی نئے سرے سے آبادکاری ہونی تھی، جب کہ دیگر کو مقدمہ چلائے بغیر رہا کیا گیا۔ اس وقت حراستی مرکز میں 50 سے بھی کم قیدی بند ہیں۔
تاہم، اوباما کی جانب سے حراستی مرکز کو بند کرنے کا ہدف پورا نہیں ہوسکا، جن کی کئی وجوہات رہی ہیں، جِن میں سیاسی اور قانونی رکاوٹیں شامل ہیں۔