کرونا وائرس کی نئی جینیاتی قسم اومکرون کا ظہور نہ صرف اس مہلک وبا پر قابو پانے میں دنیا کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی یقین دہانی ہے کہ سائنس دان مہینوں سے انتباہ کر رہے تھے کہ اس عالمگیر وبا کا پھیلاؤ اور اس کے ویریئنٹس کو اس وقت تک روکنا ممکن نہیں ہے جب تک دنیا کے تمام حصوں کو اس کی ضرورت کے مطابق ویکسین فراہم نہیں کر دی جاتی۔
امیر ملکوں میں ویکسین کی ذخیرہ اندوزی اور غریب ملکوں کی محرومی کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ امیر ملک بھی کرونا وائرس کے شکنجے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں وائرس کی ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقلی کو روکا نہیں جا سکتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وبا ان آبادیوں میں تیزی سے پھیلتی ہے جہاں ویکسین لگانے کی شرح کم ہوتی ہے۔ ایسی جگہوں پر یہ خطرات بھی زیادہ شدت سے موجود ہوتے ہیں کہ وائرس اپنی جینیاتی ہئیت تبدیل کر کے زیادہ طاقت ور ہو جائے اور بعض صورتوں میں تو پہلے سے موجود ویکسینز بھی اس کا پھیلاؤ روکنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ یہ صورت حال بہت خطرناک ہوتی ہے اور وبا پر قابو پانے کے لیے اس سے قبل کی جانے والی کوششوں پر پانی پھر جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ویکسین کی تقسیم کے پروگرام 'کو ویکس' میں شامل ایک گروپ سی ای پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر رچرڈ ہیچٹ کہتے ہیں کہ ' وائرس بے رحم اور موقع پرست ہوتا ہے۔ وائرس کے خلاف عدم مساوات پر مبنی ردعمل نے اس کا پھیلاؤ مزید آسان بنا دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ویکسین کی تقسیم میں عدم مساوات افریقہ میں زیادہ نمایاں دکھائی دیتی ہے جہاں کی 7 فی صد سے بھی کم آبادی کو ویکسین مل سکی ہے۔ حال ہی میں جنوبی افریقہ کے ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کو آگاہ کیا کہ ان کے ملک میں کرونا وائرس کے ایک نئے ویریئنٹ کی نشاہدی ہوئی ہے۔ طبی ماہرین یہ تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کتنی تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ کہ موجودہ ویکسینز اس کے خلاف کس حد تک مؤثر ہیں۔
اقوام متحدہ کے کوویکس پروگرام کے تحت افریقہ کو 2021 کے اختتام تک ویکسین کی ایک ارب 40 کروڑ خوراکیں فراہم کی جانا تھیں، جس کا مطلب ہے کہ روزانہ ڈھائی کروڑ خوراکوں کی ترسیل۔ لیکن اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ اکتوبر کے آغاز سے روزانہ کی اوسط 40 لاکھ خوراکیں فراپم ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب امیر ملکوں میں ویکسین ان کی ضرورت سے زیادہ موجود ہے اور وہاں لوگوں کو دو خوراکوں کا کورس مکمل کرنے کے بعد تیسری بوسٹر خوراک بھی دی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بوسٹر اصل میں ویکسین کی وہ خوراک ہے جس کے زیادہ ضرورت مند غریب ملکوں کے لوگ ہیں جنہیں ابھی تک ایک خوراک بھی نہیں مل سکی ہے۔
SEE ALSO: کرونا کی 'اومکرون' قسم ہائی رسک قرار، مزید ممالک میں پھیلاؤ جاریبرطانیہ کے ایک تھینک ٹینک چیتھم ہاؤس کے 'ون ہیلتھ پراجیکٹ' کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان ڈار کہتے ہیں کہ ہر ایک کے لیے اس وبا کے بڑھتے ہوئے خطرے کی صورت حال عالمی سطح پر بیماریوں اور کمزور صحت کے خلاف جنگ میں عدم مساوات کے معاملے میں غیر سنجیدگی کو نمایاں کرتی ہے۔
اسی طرح آکسفام میں ہیلتھ پالیسی مینیجر انیا میریٹ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کوویکس کی ٹیم دنیا بھر میں جلد از جلد ویکسین کی تقسیم کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن جب اسے مطلوبہ مقدار میں ویکسین فراہم ہی نہیں ہو گی تو وہ اسے تقسیم کیسے کرے گی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر کے وسط تک کو ویکس کے ساتھ ویکسین کے عطیات سے متعلق کیے گئے وعدوں میں سے صرف 12 فی صد تک پورے ہو سکے تھے۔
پچھلے ہفتے 'کو ویکس' نے اپنے ایک بیان میں یورپی یونین کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے اس سال کے آخر تک افریقہ کو ویکسین کی 10 کروڑ خوراکیں عطیہ کرنے کا وعدہ کیا ہے، جب کہ حقیقت میں اب تک ویکسین کا صرف 20 حصہ ہی بھیجا گیا ہے۔
ایک جانب تو غریب ملکوں کے لیے ویکسین کے عطیات کے وعدے ان کی ضرورت سے کہیں کم کیے گئے ہیں تو دوسری جانب ایک اور پہلو بھی سامنے آ رہا ہے۔ کوویکس کے لیے ویکسین کی فراہمی کے اتحاد نے، جیسے گیوی کہا جاتا ہے، اس ہفتے ایک ایگزیکٹو اجلاس کے لیے تیار کیے جانے والے نکات میں کہا ہے کہ امیر ممالک غریب ملکوں کے لیے ویکسین کے پرانے اسٹاک بھیج رہے ہیں جس سے اس پورے منصوبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پیر کے روز، ڈبلیو ایچ او اور افریقی یونین کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اب تک فراہم کیے جانے والے زیادہ تر عطیات یا تو وقتی نوعیت کے ہیں یا وہ ایسی ویکسین پر مشتمل ہے، جس کی میعاد کے ختم ہونے میں بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے۔
گیوی کا کہنا ہے کہ ویکسین کی فراہمی کے ساتھ کئی دوسرے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں، جن میں لاجسٹکس کا معاملہ سرفہرست ہے۔ وہ یہ کہ ویکسین صحیح وقت پر صحیح ملک میں پہنچائی جائے۔ اس کے ساتھ سرنجیں اور ویکسین کو محفوظ رکھنے کا ضروری سامان بھی ہو اور تیسرا مسئلہ ان لوگوں کو ویکسین لگوانے پر آمادہ کرنا ہے جو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایک اور معاملہ یہ بھی ہے کہ کئی غریب ملکوں کے پاس اپنے لوگوں کو ویکسین لگانے کے انتظامات اور افرادی قوت کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر کانگو میں حکام نے اس موسم گرما میں ویکسین کی اپنی پوری کھیپ کوویکس کو یہ کہتے ہوئے واپس کر دی کہ وہ میعاد ختم ہونے سے پہلے لوگوں کو ویکسین لگانے کا انتظام نہیں کر سکیں گے۔
تاہم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈہاٖنوم گیبریئس نے کہا کہ اصل مسئلہ تقسیم کا نہیں بلکہ غریب ممالک میں حفاظتی ٹیکوں کی راہ میں واحد رکاوٹ سپلائی ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)