بھارت کی ریاست اتر پردیش میں مبینہ 'لو جہاد' مخالف قانون کی منظوری کو ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران اس قانون کے تحت پولیس نے 16 مقدمات درج کیے۔ جب کہ 86 افراد کے خلاف کارروائی کی گئی اور 54 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
اس قانون کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ اسے ابھی مزید 31 ملزمان کو گرفتار کرنا ہے۔
رپورٹس کے مطابق 15 مقدمات ہندو لڑکیوں سے متعلق ہیں۔ صرف دو مقدمات میں لڑکیوں نے رپورٹ درج کرائی ہے۔ البتہ باقی تمام معاملوں میں لڑکیوں کے والدین نے مقدمات درج کرائے ہیں۔ سب سے زیادہ 26 کیسز ضلع ایٹہ میں درج کیے گئے۔
پولیس کے مطابق وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے جبری تبدیلیٔ مذہب کے خلاف سخت اقدمات کی ہدایت کے پیشِ نظر مذکورہ کارروائیاں کی گئیں۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ آٹھ مقدمات میں لڑکوں اور لڑکیوں نے ایک دوسرے کا دوست بتایا یا یہ کہا کہ ان میں آپس میں تعلق ہے۔ ایک جوڑے نے دعویٰ کیا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ ایک معاملہ اعظم گڑھ میں مبینہ طور پر جبری عیسائی بنانے کا ہے۔ اس معاملے میں پولیس نے تین افراد کے خلاف کارروائی کی ہے۔
بجنور، شاہ جہاں پور، بریلی، مظفر نگر، سیتا پور، ہردوئی، قنوج، اعظم گڑھ اور مراد آباد اضلاع میں بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ مذکورہ قانون کے تحت شادی کے لیے جبری مذہب تبدیل کرانے یا اپنا مذہب پوشیدہ رکھ کر شادی کرنے کا جرم ثابت ہونے پر کم از کم 10 سال قید اور 50 ہزار روپے کا جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکور نے کہا ہے کہ اس قانون میں بہت خامیاں ہیں۔ یہ عدالت میں نہیں ٹھہر سکتا۔ اسے خارج کر دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اسد علوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس سے قبل بھی 'لو جہاد' سے متعلق متعدد معاملات عدالت عظمیٰ میں آئے اور سب میں عدالت نے کہا کہ دو بالغ شادی کرنا چاہیں تو اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب کے ماننے والے اور ذات برادری کے افراد کے ساتھ شادی کرنے کا آئینی حق رکھتے ہیں۔
ان کے بقول یہ قانون سپریم کورٹ میں کالعدم کر دیا جائے گا۔
انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے تازہ فیصلے کی روشنی میں کہا کہ اس نے بھی یہی بات کہی ہے کہ دو بالغ اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں اور اپنی زندگی اپنے طور پر گزار سکتے ہیں۔
سینئر صحافی ابھے دوبے کہتے ہیں کہ جن ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتیں ہیں۔ ان میں 'لو جہاد' کے خلاف سب سے پہلے اور سخت قانون بنانے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ وہ عورت کو مرکز میں رکھ کر فرقہ وارانہ بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اتر پردیش (یو پی) میں بی جے پی کو یکے بعد دیگرے تین انتخابات 2014، 2017 اور 2019 میں یک طرفہ اور زبردست کامیابی ملی ہے۔ وہ یہ مانتی ہے کہ ریاست کی سیاست پر طویل مدت تک اس کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔ ایسے میں نہ تو سول انتظامیہ اور نہ ہی پولیس اس کے حکم کے خلاف جا سکتی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہاں اگر حکومت بدل جائے تو پولیس کا رویہ بھی بدل جائے گا۔
ابھے دوبے مزید کہتے ہیں کہ لوگ یہ کہتے رہے ہیں کہ 'لو جہاد' کا معاملہ اٹھانے والے چند مٹھی بھر لوگ ہیں۔ لیکن یہ بات غلط ثابت ہوئی ہے۔ اب تو پوری بی جے پی اس معاملے کو اٹھا کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
مدھیہ پردیش (ایم پی) کی ریاستی کابینہ نے بھی تین روز قبل ایسا ہی ایک قانون منظور کیا ہے جس کا نام 'جبری تبدیلیٔ مذہب مخالف قانون' ہے۔ اس کے تحت بھی دس سال قید اور 50 ہزار روپے کا جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔
مبصرین کے مطابق 'لو جہاد' کی اصطلاح ہندوتوا نواز عناصر کی گھڑی ہوئی ایک اصطلاح ہے۔ ہندو لڑکی اور مسلم لڑکے کی شادی کو' لو جہاد' کہا جاتا ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلم لڑکے منصوبہ بندی کے تحت ہندو لڑکیوں کو محبت کا جھانسا دیتے ہیں اور پھر ان سے شادی کرکے ان کا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اس کے لیے ایک ایک مسلم نوجوان کو خلیجی ممالک سے 10، 10 لاکھ روپے ملتے ہیں۔ تاہم مبصرین کہتے ہیں کہ ان دعوؤں کا کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔
دریں اثنا الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں ایٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سلمان عرف کرن کی حبس بیجا کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ایک ہندو لڑکی شکھا کو اس کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔
عدالت کا کہنا ہے کہ لڑکی بالغ ہے اور اسے اپنی پسند کی شادی کرنے اور اپنی زندگی اپنے طور پر جینے کا آئینی حق ہے۔
بینچ نے ہندو لڑکی شنکھا کو لڑکیوں کے ایک مرکز میں بھیجنے کے ایٹہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (سی جے ایم) کے فیصلے کے خلاف سخت ریمارکس دیے اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سی جے ایم کو قانون کی کم سمجھ ہے۔