"میں اپنے دل کا حال کیا بتاؤں۔ میری زندگی جانور سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔پہلے ہمارے گھرانے کے چھ افراد بر سر روزگار تھے۔ لیکن اب تمام کے تمام بے روزگار ہو چکے ہیں۔"
یہ کہنا ہے شکریہ قادری کا جو سابقہ دور حکومت میں ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے ساتھ وابستہ تھیں۔
کابل میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ آج اگر وہ کوئی نوالہ لیتی ہیں تو کل کی فکر پڑ جاتی ہے۔ اگلے دن کھاتی ہیں تو اس سے اگلے دن کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ گھر کا کرایہ الگ سے ہے۔ جو جمع پونجی تھی وہ مٹھی سے ریت کی طرح سرک رہی ہے۔
شکریہ قادری کہتی ہیں کہ کابل میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جس کے باعث اُن کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دور کو یاد کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ اس وقت لوگوں کو روزگار میسر تھا، خوشحالی تھی، لیکن اب وہ جہاں بھی جاتی ہیں، اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ خواتین کے لیے روزگار نہیں ہے۔
شکریہ کہتی ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین تو دُور کی بات مردوں کے لیے بھی کوئی روزگار نہیں ہے اور یہ حالات دیکھ کر ان کو نااُمیدی کا احساس ہو جاتا ہے کہ آخر کب تک وہ اس تاریکی میں زندگی بسر کریں گی؟
افغانستان میں طالبان کے دورِ اقتدار کے دوران جہاں امن و امان کی بہتری کے دعوے کیے جاتے ہیں تو وہیں ماہرین کے مطابق معاشی صورتِ حال دگرگوں ہو گئی ہے۔ روزگار نہ ہونے کے برابر ہے جس کے باعث شہری دیگر ملکوں میں جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
شکریہ قادری کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر یہ حالات ایسے ہی رہے تو ملک کا امن و امان خطرے میں پڑ جائے گا کیونکہ روزگار نہ ہونے کے سبب لوگ شر پسندی کی جانب آسانی سے مائل ہو سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معاشی حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ کچھ لوگ تو خود کشی کا سوچ رہے ہیں۔ ""پچھلے دنوں ایک خاتون جس کے تین بچے ہیں اُنہوں نے بتایا کہ وہ زندہ نہیں رہنا چاہتیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ پہلے اپنے بچوں اور پھر خود زہر کھا لے۔ تاہم میں نے اسے سمجھایا کہ ایسا نہ کریں کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ایک روزی کو نہ ٹھکرائیں اور دوسرا خودکشی نہ کریں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ اگست میں اقتدار سنبھالنے سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ طالبان سابقہ تجربوں سے سبق سیکھتے ہوئے بدل چکے ہیں۔ تاہم افغانستان میں یہ شکایات عام ہیں کہ طالبان نے دوبارہ سے سخت گیر پالیسیاں نافذ کرنا شروع کر دی ہیں۔
ان پالیسیوں میں خواتین کا محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنا، مخلوط تعلیم پر پابندی، 78کلومیٹرسے زائد سفر کے لیے محرم کا ساتھ ضروری ہونا، خواتین کی آزادی اور روزگار اور ساتویں سے بارہویں جماعت تک لڑکیوں کے اسکول بند ہونا شامل ہیں۔
طالبان خود پر ہونے والی عالمی تنقید اور شہریوں کی مشکلات پر کہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں جو کچھ بھی کر رہے ہیں، شریعت کے تحت کر رہے ہیں۔
'اساتذہ پریشان اور ڈپریشن میں ہیں'
شاپیرئی افغان شہری ہیں اور گزشتہ 30 برس سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ طالبان کے آنے سے قبل وہ دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کو دری زبان پڑھاتی تھیں۔ اسکولوں کی بندش کے باعث اب وہ بھی گھر پر بیٹھی ہیں۔ان کا زیادہ تر وقت اب گھر کے کچن میں گزرتا ہے۔
کابل میں اپنے گھر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ یوں گھر پر بیٹھے رہنے کا احساس انہیں بے چین کیے رکھتا ہے۔ اساتذہ سخت تکلیف میں ہیں۔ مالی حالات خراب ہیں جس کے باعث معاشرے میں ڈپریشن کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا بہت افسوس ہے کہ ان کے شاگرد اسکول سے دور ہیں۔ وہ اداس ہیں۔ ان کے اعصاب کمزور ہو رہے ہیں اور اپنے گھروں میں محصور ہیں۔
افغانستان میں پہلی سے چھٹی جماعت تک اسکول کھلے ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹیاں بھی کھلی ہیں۔ تاہم ساتویں سے لے کر بارہویں جماعت تک کے اسکول بند ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم کے خلاف نہیں ہیں تاہم کچھ انتظامی معاملات کے باعث ان طلبہ کے لیے اسکول تا حال نہیں کھولے گئے ہیں۔
شاپیرئی طالبان کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کس قسم کی حکمتِ عملی ہے جو ایک سال میں وضع نہیں ہو سکی؟
اُنہوں نے مزید بتایا کہ طالبان کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ خواتین کو روزگار کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زیور سے بھی دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اور یہی کچھ گزشتہ ایک سال کی پالیسی میں کھل کر نظر آ رہا ہے۔
گزشتہ چار دہائیوں سے حالتِ جنگ کے باعث افغانستان کی اقتصادی حالت بری طرح متاثر ہوئی جس کی وجہ سے ملک کا انحصار غیر ملکی امداد پر رہا ہے۔ لیکن طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہ کیے جانے کے باعث غیر ملکی امداد میں بھی کمی آئی ہے۔
عالمی برادری طالبان پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ جامع حکومت کے قیام کے علاوہ ملک میں انسانی حقوق اور بالخصوص خواتین کی تعلیم اور اُنہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔
افغانستان کے صوبہ قندوز سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ نور اللہ سابقہ دور میں ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ تھے۔ لیکن اب وہ ایک ڈبے میں گرم کوئلے کے اُوپر سفوف نما چیز ڈال کر لوگوں کی نظر اُتارتے ہیں جس کے عوض لوگ انہیں معمولی رقم دے دیتے ہیں۔
افسردہ لہجے میں نور اللہ نے بتایا اُنہیں سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اُن کے ملک کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیرون ممالک منتقل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ تاہم وہ اپنے ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ بیرون ملک انہیں پھر مہاجر کہا جاتا ہے۔ جو کہ ایک گالی کے مترادف ہے۔
نور اللہ کے مطابق وہ اپنے ہی ملک میں گدا گر بن گئے ہیں اور ان کے دل کا حال صرف خدا جانتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے لوگوں کی نظر اتارتے ہوئے لوگ کچھ رقم تو دے دیتے ہیں لیکن اُنہیں لوگوں کی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔شاہد ہی کوئی ایسا دن ہو جب وہ زار و قطار روتے نہ ہوں۔
طالبان کے ایک سالہ اقتدار کے بارے میں اُنہوں نے بتایا کہ وہ صرف یہی کہنا چاہیں گے کہ با عزت روزگار چھوڑ کر بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ بھیک مانگنے پر پابندی لگا رہے ہیں جب کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی اپنی مرضی سے بھیک مانگنے پر مجبور نہیں ہوتا۔
نور اللہ کہتے ہیں کہ وہ دن دُور نہیں جب لوگ مجبور ہو کر گلی محلوں میں وارداتیں شروع کر دیں گے۔ یہ کہتے ہی نور اللہ نے اپنی جیب سے سفوف نکال کر ا سے گرم کوئلے میں ڈالا جس کے بعد دھواں نکلنا شروع ہوا اور وہ ایک گاڑی کی جانب سواریوں کی نظر اُتارنے کے لیے بھاگے۔