پاکستان میں یہ رجحان عام ہے کہ بڑی تعداد میں خواتین ڈاکٹرز تعلیم مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ طور پر شعبہ طب سے وابستہ نہیں ہوتیں، تاہم چند خواتین ڈاکٹرز نے 'صحت کہانی' کے نام سے آن لائن مشورہ کلینک شروع کیا ہے جس کے ذریعے مریضوں کو خواتین معالجین تک رسائی مل رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سنہ 2015 کے سروے کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ میں سے 178 مائیں دوران زچگی موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ جس کی بڑی وجہ سہولیات کے فقدان کے علاوہ لیڈی ڈاکٹرز اور تربیت یافتہ نرسنگ اسٹاف کی کمی بھی ہے۔
پاکستان کے دوردراز علاقوں میں طبی سہولیات کے فقدان کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین ڈاکٹرز یہاں تعیناتی میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ہزاروں خواتین ڈاکٹرز سرکاری میڈیکل کالجز سے ڈگری مکمل کر کے اس فیلڈ کو چھوڑ دیتی ہیں۔ بعض خواتین کے مطابق شادی کے بعد سسرال والوں کے دباوؑ کے باعث بھی بہت سی خواتین شعبہ طب سے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہیں۔
صحت کہانی کیا ہے؟
ڈاکٹر سارا سعید کا شمار بھی ان خواتین میں ہوتا ہے جو شادی کے بعد ایسی صورتحال سے دوچار ہوئیں کہ اپنی میڈیکل پریکٹس جاری نہ رکھ سکیں۔ لیکن یہ بات انکے ذہن میں تھی کہ وہ کبھی نہ کبھی اپنی فیلڈ سے رشتہ ضرور جوڑیں گی۔
ڈاکٹر سارا نے اپنی ہم خیال ڈاکٹرز کے ساتھ مل کر آن لائن مشورہ کلینک شروع کرنے کا فیصلہ کیا، اور یوں سنہ 2017 میں صحت کہانی کے نام سے آن لائن کلینک کی بنیاد رکھی گئی۔ ڈاکٹر سارا کے مطابق آن لائن کلینک میں ابتدائی طور پر 1500 ڈاکٹرز کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جبکہ 60 ڈاکٹرز براہ راست کلینک سے وابستہ ہیں۔
صحت کہانی کیسے کام کرتا ہے؟
ڈاکٹر سارا کہتی ہیں کہ صحت کہانی کے ذریعے ملک کے کسی بھی حصے سے خواتین ڈاکٹرزسے مشورہ کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر کم آمدنی والے ان علاقوں کو ترجیح دی جاتی ہے جہاں عام طور پر خواتین ڈاکٹرز کی رسائی نہیں ہوتی اور نہ ہی مریض ڈاکٹرز کی بھاری فیسیں ادا کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے دیہی علاقے جہاں لوگ ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں وہاں کی مقامی نرسیں صحت کہانی کے لیے رابطہ کار کا کام کرتی ہیں۔
یہ نرسز اور مڈ وائف جو پہلے سے ان علاقوں میں اپنے کلینکس چلا رہی ہیں صحت کہانی نے ان کے ساتھ اشتراک کیا ہے، جو مریض ان کے پاس آتا ہے معائنے کے بعد یہ نرسز صحت کہانی کی خاتون ڈاکٹر کو مریض کی ہسٹری اور دیگر علامات سے آگاہ کرتی ہے اور مریض کا رابطہ خاتون ڈاکٹر سے کرواتی ہیں۔
خاتون ڈاکتر مکمل تشخیص کے بعد میڈیکل ٹیسٹ یا ادویات تجویز کرتی ہے۔ ان مریضوں سے محض پچاس سے سو روپے وصول کیے جاتے ہیں جبکہ ضرورت پڑنے پر ٹیسٹوں کے نرخ بھی انتہائی کم رکھے گئے ہیں۔
لگ بھگ 85 پزار خواتین ڈاکٹرز فیلڈ چھوڑ دیتی ہیں
جناح اسپتال کی شعبہ حادثات کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی نے ایک تقریب کے دوران یہ انکشاف کیا کہ پاکستان میں لگ بھگ 85 ہزار سے زائد خواتین ڈاکٹرز ایسی ہیں جو میڈیکل کی فیلڈ سے وابستہ نہیں رہیں۔ اس بات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ اس نقصان کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میڈیکل کالجز میں خواتین کی نشستیں کم کردینی چاہیے۔
خواتین ڈاکٹرز کیوں جلدی میڈیکل کی فیلڈ چھوڑ دیتی ہیں؟
ڈاکٹر سارا سعید خود دو بچوں کی ماں ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عام رواج یہی ہے کہ لڑکیوں کو ڈاکٹر بنایا جائے تاکہ ان کا اچھی جگہ رشتہ ہو سکے۔ ان کے بقول لڑکے والے بھی ایسی لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں جو ڈاکٹر ہو تاہم شادی کے بعد بیشتر سسرالی بہو کا ملازمت کرنا پسند نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہاوؑس جاب کرنے والی خواتین ڈاکٹرز کو مسلسل 36 گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا ہے، انہیں ایمرجنسی کی صورت میں کسی بھی وقت اسپتال بلایا جاسکتا ہے۔ ان کے بقول جب سسرال والوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ نائٹ ڈیوٹی بھی کرنا ہو گی تو انھیں اس پر شدید اعتراض ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سارا کے بقول سولہ برس کی انتھک محنت اور مشکل پڑھائی کے بعد کوئی بھی لڑکی اس لیے ڈاکٹر نہیں بنتی کہ اسے یہ فیلڈ چھوڑنی ہوتی ہے لیکن سماجی دباوؑ کے باعث مجبوراً انہیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔
اپنی مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر سارا نے بتایا کہ 'جب میرے ہاں پہلی بیٹی ہوئی تو اس دوران انھیں دوسرے شہر بھی منتقل ہونا پڑا اور یوں انھیں بریک لینا پڑا، تاہم انہوں نے گھر والوں کو قائل کیا کہ انھیں کچھ کرنا ہے اور یوں انھوں نے صحت کہانی کی بنیاد رکھی'۔
پاکستان میں ڈے کیئر سنٹرز کی کمی
صحت کہانی کی شریک بانی ڈاکٹر عفت ظفر کا کہنا ہے کہ جہاں بہت سے گھرانوں میں خواتین ڈاکٹرز کے کام کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تو وہیں بعض خاندان خواتین ڈاکٹرز کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خواتین ڈاکٹرز کو اسپتال میں کئی گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ان خواتین کو یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کہاں چھوڑیں؟
کراچی میں سوائے آغا خان اسپتال کے کسی دوسرے اسپتال میں ڈے کیئر سنٹر سرے سے موجود ہی نہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ مجبوریاں ہیں جس کے باعث خواتین پر دباوؑ بڑھ جاتا ہے کہ وہ ملازمت چھوڑ کر خود اپنے بچوں کی پرورش کریں۔
صحت کہانی سے منسلک خواتین ڈاکٹرز کیا کہتی ہیں؟
ڈاکٹر بینش احسان نے ڈیڑھ سال قبل صحت کہانی کے ساتھ کام شروع کیا، ان کا کہنا ہے کہ ہاوؑس جاب کے دوران شادی اور پھر بچے کی پیدائش کے بعد انہوں نے پریکٹس جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے بچے کی بہتر نگہداشت کر سکیں۔
ان کے بقول صحت کہانی کے ذریعے وہ گھر بیٹھے اپنے علم سے مریضوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور کسی بھی جگہ مریض سے رابطہ قائم کرکے ان کے صحت کے مسائل حل کر سکتیں ہیں جو ان کے لیے اطمینان بخش بات ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ پچھتاوا بھی اب ختم ہو گیا ہے کہ وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مریضوں کو اس کا فائدہ نہیں پہنچا پا رہیں۔ صحت کہانی نے بہت سی ایسی خواتین کا کھویا ہوا مقام بحال کیا ہے۔ بینش کہتی ہیں کہ ان کے سسرال والوں کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ ان کے شوہر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بینش کو یہ بھی گلہ ہے کہ سارا ملبہ ان خواتین پر ڈالنا بھی مناسب نہیں جو تعلیم حاصل کر کے گھر بیٹھ جاتی ہیں، ان کے بقول بہت سے ڈاکٹرز دوسرے ممالک چلے جاتے ہیں ان سے یہ سوال کیوں نہیں ہوتا کہ انھوں نے ملک کی خدمت نہیں کی۔
کیا خاتون مریض کے لیے خاتون ڈاکٹر بہتر ہے؟
صحت کہانی سے استفادہ کرنے والی خواتین مریضوں کا کہنا ہے کہ بہت سے معاملات پر وہ مرد ڈاکٹرز سے کھل کر گفتگو نہیں کرسکتیں تھیں تاہم صحت کہانی کے ذریعے انھیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ خاتون ڈاکٹرز کو اپنے مسائل سمجھا سکیں۔
نرسنگ کے شعبے سے وابستہ افشاں گل کا کہنا ہے کہ جب ہم نے مریضوں کو بتایا کہ آپکا رابطہ لیپ ٹاپ کے ذریعے خاتون ڈاکٹر سے کروایا جارہا ہے تو وہ حیران ہوتے تھے۔ تاہم ان کی کونسلنگ اور ڈاکٹر سے بات چیت کروانے کے بعد مریضوں کو بہت تسلی ہوئی اور یوں اب مریضوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
افشاں گل کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے مریض اور ڈاکٹرز کے درمیان فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔