اپوزیشن جماعتوں کا نیا اتحاد، حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے لیے کتنا خطرہ؟

حزبِ اختلاف کی 11 جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد متفقہ اعلامیے میں وزیرِ اعظم عمران خان سے مستعفی ہونے اور ملک میں نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے حکومت مخالف تحریک چلانے کے اعلان کے بعد ملک میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلانے کے لیے متحد اور ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں یا نہیں۔

پاکستان کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد حکومت کے علاوہ کیا طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے یا نہیں؟

اتوار کو اسلام آباد میں حزبِ اختلاف کی 11 جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے بعد متفقہ اعلامیے میں وزیر اعظم عمران خان سے مستعفی ہونے اور ملک میں نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ملک میں 'حقیقی جمہوریت' کی بحالی کی اس تحریک کو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا نام دیا ہے۔

حزب اختلاف کے رہنما کہتے ہیں کہ ان کی یہ تحریک صرف حکومت کے خاتمے کی نہیں بلکہ فوج کی سیاست میں مداخلت ختم کرنے کے لیے ہے۔

پیپلز پارٹی کی میزبانی میں منعقدہ کثیر الجماعتی کانفرنس کی خاص بات علاج کے لیے لندن میں موجود سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب تھا۔

اپنے خطاب میں نواز شریف نے فوج کی سیاسی و حکومتی معاملات میں مداخلت کو ملکی مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی تجویز دی۔

طویل عرصے کی خاموشی کے بعد نواز شریف نے کہا کہ ان کی جدوجہد موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ انہیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی کہا کہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد (پی ڈی ایم) اُن کے بقول سیلیکٹڈ حکومت کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔

وزیر اعظم عمران خان یہ دعوی کرتے رہتے ہیں کہ انہیں فوج کی حمایت حاصل ہے تاہم فوج کی جانب سے سیاسی و حکومتی معاملات میں مداخلت کی نفی کی جاتی رہی ہے۔

'حزب اختلاف اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتی'

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کی احتجاجی تحریک حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہے، لیکن وہ اتنی منظم نہیں کہ طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے ملکی معاملات میں کردار کو محدود کر سکیں۔

تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت مخالف تحریکیں تو چلتی رہی ہیں تاہم ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سیاسی جماعتوں نے براہ راست اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک چلائی ہو۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افتحار احمد نے کہا کہ سیاسی جماعتیں فوجی جرنیلوں کا نام لے کر یہ تاثر دے رہی ہیں کہ اُن کی جدوجہد فوج کے خلاف نہیں بلکہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے والے جرنیلوں کے خلاف ہے۔

افتخار احمد کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اس قدر منظم اور طاقت ور نہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو شکست دے سکیں ۔

تجزیہ کار زاہد حسین بھی افتحار احمد کے تجزیے سے متفق ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں ماضی میں فوج کے سیاست میں کردار سے فائدہ اُٹھاتی رہی ہیں۔ لہٰذا اُنہیں یہ تحریک زیادہ تر چلتی دکھائی نہیں دیتی۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف خود کہتی ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر کھڑی ہے اور اگر سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹ جاتی ہیں تو صورتِ حال مزید پیچیدہ اور بے قابو ہو سکتی ہے۔

'احتجاج سے حکومت کو دباؤ میں لایا جاسکتا ہے'

کچھ تجزیہ کاریہ سمجھتے ہیں کہ حزبِ اختلاف اگر اپنے اعلانیے پر عمل درآمد کرے تو یہ پارلیمانی نظام اور ملکی سیاست کے لیے خوش آئند ثابت ہو گا۔

افتخار احمد کے بقول پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک قومی مذاکرے کی ضرورت ہے۔ اگر ریاستی ادارے اپنے اختیارات کی حدود کا تعین نہیں کرتے تو اس نظام کے ذریعے عام آدمی کی توقعات پوری نہیں کی جا سکتیں۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں حکومت مخالف تحریک چلانے پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تاہم ان کے نزدیک حکومت کے لیے فوری بحران کی صورت اس وقت پیدا ہوتی اگر حزب اختلاف کی جماعتیں پارلیمنٹ سے مستعفی ہو جائیں۔

اُنہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف حالیہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی اکثریت کے باوجود حکومت کو مشکل میں ڈالنے میں ناکام رہی لہذا ان کے نزدیک حکومت کے لیے فوری خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔

کثیر الجماعتی کانفرس میں جماعت اسلامی کے علاوہ حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے اکتوبر سے ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے اپنے مطالبات کے حق میں آئندہ سال جنوری میں لانگ مارچ کا بھی اعلان کیا ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما، سینیٹر فیصل جاوید نے حزبِ اختلاف کی کثیر الجماعتی کانفرنس پر ردعمل میں کہا کہ خارجہ پالیسی سے کراچی پلان تک فوج عمران خان کے ساتھ ہے۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ دھاندلی کا شور کرنے والی اپوزیشن بتائے کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے انہوں نے پارلیمنٹ میں کیا سفارشات پیش کیں۔