پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حزبِ اختلاف ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی پابندیوں سے نکالنے کے حکومتی اقدامات کو منفی انداز میں متاثر کر رہی ہے کیوںکہ ان کے مطابق اپوزیشن رہنماؤں کے مفادات ملک کے مفادات سے متصادم ہیں۔
منگل کو ٹوئٹر پر اپنے بیان میں عمران خان نے کہا کہ سینیٹ میں حزبِ اختلاف نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کے دو اہم بل اینٹی منی لانڈرنگ اور اسلام آباد وقف املاک بل مسترد کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ خود غرض اپوزیشن رہنماؤں کا ذاتی مفاد، ملکی اور قومی مفاد سے متصادم ہے۔
خیال رہے کہ منگل کو ایف اے ٹی ایف سے متعلق ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے دو قانونی بل ایوانِ بالا یعنی سینیٹ نے مسترد کر دیے تھے۔ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو اکثریت حاصل ہے۔
البتہ حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ حکومت ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں پاکستان کو پولیس اسٹیٹ بنانا چاہتی ہے تاکہ مخالف رہنماؤں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رُکن سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ حکومت اس سے قبل بھی ایف اے ٹی ایف کے نام پر بنیادی انسانی حقوق کے خلاف بل منظور کروانا چاہتی تھی لیکن حزبِ اختلاف نے اسے پیش نہیں ہونے دیا۔
عمران خان کا اپنی ٹوئٹ میں مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن کے گرد احتساب کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے تو یہ لوگ اپنی بدعنوانی کی رقم بچانے کے لیے پارلیمنٹ کو کام سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حزبِ اختلاف نے پہلے کرونا سے نمٹنے کی حکومت کی مؤثر حکمت عملی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور اب ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی پاکستان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں حکومتی بلز کی مخالفت اس لیے کی گئی کیوں کہ اس میں پولیس اور تفتیش کاروں کو وارنٹ کے بغیر گرفتاری کا اختیار دیا گیا تھا جو کہ کسی صورت ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ نہیں ہو سکتا۔
شیری رحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ ایسے قوانین کا دفاع تنگ نظر جمہوریت میں بھی نہیں کیا جا سکتا جو مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بچانے اور بنیادی حقوق کی پامالی سے روکنے کے لیے قائمہ کمیٹیوں میں قوانین میں ترامیم کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف سے متعلق مجوزہ قانون سازی کو قومی احتساب بیورو کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ اپوزیشن کو ہدف بنایا جاسکے۔
'پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بل منظور کروائیں گے'
حزب اختلاف کا اعتراض تھا کہ حکومت نے ان بلوں کو ایوان میں منظوری کے لیے پیش کرنے سے پہلے پارلیمانی تقاضے پورے نہیں کیے جس پر حکومتی سینیٹرز اور حزبِ اختلاف کے اراکین کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
بحث کے بعد چیئرمین سینیٹ نے بل پیش کرنے کی رولنگ دی تو سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ہم پاکستان کے مفاد کی خاطر حکومت سے تعاون کرتے ہیں لیکن حکومتی رہنما حزبِ اختلاف کی قیادت سے متعلق گری ہوئی تنقید کرتے ہیں لہذٰا یہ بل مسترد ہوں گے۔
چیئرمیں سینیٹ نے بل ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیے تو حزبِ اختلاف کے اراکین کی اکثریت والے ایوان نے انہیں مسترد کر دیا۔
'قانون سازی کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے'
وزیرِ اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے بل مسترد ہونے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملکی مفاد کی قانون سازی کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ اُنہیں توقع تھی کہ اپوزیشن اپنے رہنماؤں کو بدعنوانی کے مقدمات سے بچانے کے لیے قانون سازی منظور نہیں ہونے دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت معیشت میں شفافیت چاہتی ہے لیکن بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کرنے والے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے یہ قانون سازی منظور نہیں ہونے دی۔
انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف چاہتی ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں چلا جائے کیوں کہ ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔
شبلی فراز نے مزید کہا کہ حکومت ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانونی بل کی منظوری کے لیے قانون میں دستیاب راستے کے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے گی۔
خیال رہے کہ پا کستان کے آئین کے تحت حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ کسی ایک ایوان سے مسترد ہونے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر قانون سازی کر سکتی ہے۔