بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔
منگل کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے اختتام پر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سیکریٹری اسمبلی کے پاس جمع کرائی۔
تحریک جمع کرانے والوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے رکن نصر اللہ زیرے، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے ملک نصیر شاہوانی اور جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے رکن یونس عزیز زہری شامل تھے۔ تحریکِ عدم اعتماد پر حزبِ اختلاف کی اتحادی جماعتوں کے 16 اراکین نے دستخط کیے ہیں۔
اپوزیشن نے تحریک جمع کرنے کی وجوہات میں جام کمال خان کے حوالے سے کہا ہے کہ گزشتہ تین برس میں وزیرِ اعلیٰ کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے۔
حزب اختلاف کے مطابق موجودہ حکومت میں صوبے میں بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کو روزگار کے حصول میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب کہ خراب طرزِ حکمرانی کی وجہ سے اداروں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔
تحریکِ عدم اعتماد میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے آئین کی شق 37 اور 38 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر منصفانہ، عدم مساوات اور معتصبانہ ترقیاتی بجٹ پیش کیا جس سے دانستہ طور پر بعض علاقوں میں پسماندگی اور محرومی کو جنم دیا گیا۔
حزب اختلاف نے وزیر اعلیٰ پر الزام لگایا ہے کہ جام کمال خان وفاق میں بلوچستان کے آئینی اور بنیادی حقوق کے مسائل پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس سے صوبے میں بجلی، گیس اور پانی کی قلت کا بحران سامنے آیا ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد اپوزیشن اراکین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کو تحریک کامیاب کرانے کے لیے مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل ہے جن میں بعض حکومتی اراکین بھی شامل ہیں۔
اپوزیشن رہنماؤں نے کہا ہے کہ تحریک پیش ہونے کے بعد نہ صرف وزیر اعلیٰ کو اخلاقی طور پر سیکریٹریٹ چھوڑ دینا چاہیے بلکہ تقرر اور تبادلوں کے ساتھ انتظامی امور کا سلسلہ روک دینا چاہیے۔
بلوچستان میں پارلیمانی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ نے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بھی وزیرِ اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی مگر اس بار اپوزیشن بہت زیادہ پر اعتماد ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رشید بلوچ کے بقول اس بار صورتِ حال مختلف ہے۔ وزیرِ اعلیٰ کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے اراکین سردار صالح بھوتانی اور اکبر آسکانی خوش نہیں ہیں۔ اسی طرح پارٹی میں اور بھی لوگ ہیں جو جام کمال خان سے ناراض ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف بی اے پی بلکہ حکومت کے اتحادی بھی یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس کا پلڑا بھاری ہے۔ اگر اپوزیشن نمبرز پورے کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی حزبِ اختلاف کا ساتھ دیں گی۔
رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کے پاس چند دن ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ناراض اراکین کو منانے کی تگ و دو بھی شروع کر دی ہے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے موجودہ صورتِ حال پر سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں عدم اعتماد کی تحریک کی پروا نہیں ہے۔ اگر جماعت اور اتحادی ان کے ساتھ ہیں تو حزبِ اختلاف کی تحریک سے فرق نہیں پڑتا۔
وزیرِ اعلیٰ نے کہا ہے کہ جس دن ان جماعت اور اتحادیوں کی اکثریت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا تو وہ خود عہدہ چھوڑ دیں گے۔
ان کے مطابق پارٹی اور اتحادیوں کے ساتھ نہ ہونے پر انہیں ایوان کا سربراہ ہونے کا حق نہیں ہو گا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے، جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام شامل ہیں، اس بار سوچ سمجھ کر ہی وزیرِ اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی ہے۔ اپوزیشن وزیرِ اعلیٰ کو مشکل وقت دے سکتی ہے۔
دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ نے تحریک کو ناکام بنانے کے لیے اتحادیوں اور پارٹی کے ناراض اراکین کو منانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔