پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
دوسری طرف قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کرنے پر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تین اراکین کو شو کاز نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
جن اراکین کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں اُن میں پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر، مسلم لیگ (ن) کے حامد حمید اور تحریکِ انصاف کے عطا اللہ خان شامل ہیں۔
خیال رہے کہ چار فروری کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہنگامہ آرائی اور گالم گلوچ ہوئی تھی جب کہ کئی اراکین گتھم گتھا بھی ہو گئے تھے۔
دریں اثنا حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے سینیٹ انتخابات کے طریقۂ کار سے متعلق آرڈیننس کو حکومتی بدنیتی قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں نامنظوری کی قراردادیں بھی پیش کر دی ہیں۔
صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ہفتے کی شب سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا۔
وزیرِ اطلاعات شبلی فراز کہتے ہیں کہ ثابت ہو گیا کہ حزبِ اختلاف سینیٹ انتخابات میں شفافیت نہیں چاہتی۔
ادھر پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستانی فوج کو سیاسی معاملات میں گھسیٹا نہ جائے۔
میجر جنرل بابر افتحار کا کہنا تھا کہ فوج کا کسی سے کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں، لہذٰا بغیر تحقیق کے اس بارے میں بات کرنا کسی کو زیب نہیں دیتا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی جماعت اندونی خلفشار سے بچنے کے لیے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانا چاہتی ہے جس کے لیے بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔
'صدارتی حکم نامے میں تضادات ہیں'
سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لیے بغیر آئینی ترمیم پیش کر دیں اور اب صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران آرڈیننس جاری کر کے سپریم کورٹ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس آدھا تیتر آدھا بٹیر کی صورت ہے کیوں کہ اس کے تحت سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ جب کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہوں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ صدارتی حکم نامے میں تیکنیکی غلطیاں اور تضادات ہیں۔
کنور دلشاد کہتے ہیں کہ حکومت کے اس عمل سے الیکشن کمیشن کی حیثیت کمزور ہوئی ہے۔ کیوں کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں رائے دی ہے کہ جب تک آرٹیکل 226, 51، 59، 224 اور 223 میں ترمیم نہیں ہو جاتی، سینیٹ انتخابات کے لیے اوپن بیلٹ کا جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ غیر قانونی ہو گا۔
کنور دلشاد نے کہا کہ حکومت نے آرڈیننس کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کیا ہے جس کے تحت اگر اعلٰی عدلیہ یہ فیصلہ دیتی ہے کہ آرٹیکل 226 میں آئینی ترمیم کی جائے تو یہ آرڈیننس خود بخود تحلیل ہو جائے گا۔
تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں حکومت نے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پہلے ایگزیکٹو آرڈر کی بات کی پھر سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیج دیا اور اب راتوں رات ایک آرڈیننس جاری کر دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بادیٔ النظر میں تحریک انصاف تذبذب کا شکار ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ اضطراب اس لیے بھی ہے کہ حکومتی جماعت کے بعض اراکینِ پارلیمنٹ اعلانیہ کہ چکے ہیں کہ وہ پارٹی سے وابستگی نہ رکھنے والے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے بلکہ ان کے مقابلے میں اپنے امیدوار لے آئیں گے۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ یہ بے چینی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت اپنے اراکین پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں رکھتی اور انہیں خدشہ ہے کہ کہیں سینیٹ انتخابات کے نتائج ان کے خلاف نہ چلے جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر اس آرڈیننس کے تحت سینیٹ الیکشن ہو جاتے ہیں اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بعد میں آتا ہے تو تمام انتخابی عمل اپ سیٹ ہو جائے گا۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں سپریم کورٹ کے پاس حتمی اختیار آ گیا ہے اور اب عدلیہ جو فیصلہ دے گی سینیٹ الیکشن اس کے تحت ہوں گے۔
کنور دلشاد بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے آرڈیننس کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کیا ہے جس کے تحت اگر اعلی عدلیہ یہ فیصلہ دیتی ہے کہ آرٹیکل 226 میں آئینی ترمیم کی جائے تو یہ آرڈیننس خود بخود تحلیل ہو جائے گا۔
اُن کے بقول اگر اعلی عدلیہ اس صدارتی حکم نامے پر اپنی رائے دینے سے اجتناب کرتی ہے اور بار کونسل، سول سوسائٹی یا سیاسی جماعتیں اس صدارتی آرڈیننس کے خلاف سپریم کورٹ چلی جاتی ہیں تو سینیٹ انتخابات میں خلل واقع ہو سکتا ہے۔
کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے وزیرِاعظم کے خدشات درست ہیں اور ان کی ترمیم کی تجویز بھی صحیح ہے لیکن اس کے لیے اپنایا گیا طریقۂ کار اور وقت مناسب نہیں تھا۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کے پاس سپریم کورٹ کا فیصلہ بدلنے کا اختیار ہے نہ ہی صدارتی حکم نامے کو روک سکتے ہیں کیوں کہ وہ بھی آئینی عمل ہے البتہ وہ حکومت پر سیاسی دباؤ جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے ریماکس میں کہہ چکی ہے کہ اگر حکومت کا ریفرنس مان لیا جائے تو اس سے آئین کا ایک آرٹیکل بے معنی ہو جائے گا اور اگر آپ آئین کا آرٹیکل بے معنی کرنا چاہتے ہیں تو آئینی ترمیم لائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے اس وقت گو مگو کی کیفیت ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہی واضح ہو گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق ایوانِ بالا کے انتخابات میں خفیہ بیلٹ کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے تاہم آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا۔
اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت
دوسری جانب پاکستان کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' (پی ڈی ایم) کے رہنماؤں نے سینیٹ انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
حزبِ اختلاف جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) نے سینیٹ انتخابات کو اوپن بیلٹ سے کروانے کے لیے جاری صدارتی حکم نامے کو مسترد کر دیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے صدارتی حکم نامہ جاری کر کے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی خودمختاری کو سبوتاژ کیا ہے لہذا اس آرڈیننس کو خلافِ قانون قرار دیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جماعت اسلامی کے امیر سینٹر سراج الحق کی جانب سے سینٹ میں اس آرڈیننس کو مسترد کرنے کی تحریک بھی جمع کروائی گئی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سینٹر مصطفی نواز کھوکھر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کا اجرا سپریم کورٹ کی رائے پر اثر انداز ہونے کی واضح کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدام سے اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ عدلیہ اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے صدارتی آرڈیننس کو آئین اور سپریم کورٹ کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔
میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جب حکومت نے سپریم کورٹ ریفرنس بھیجا ہوا تھا تو آرڈیننس کے ذریعے اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی کوشش اعلی عدلیہ کو ڈکٹیشن دینے کے مترادف ہے۔
حکومت کا مؤقف
وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا سینیٹ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کے اقدام پر واویلا مچانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ اوپن بیلٹ کی مخالفت کر کے اپوزیشن نے واضح کر دیا کہ یہ سیاست میں پیسے کی سیاست ختم نہیں کرنا چاہتے۔
حکومت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ پر کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے جب کہ اسی دوران اکثریت نہ ہونے کے باوجود 26 ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس کے التوا کے دوسرے روز ہی حکومت نے اوپن بیلٹنگ کے لیے صدارتی ریفرنس کا راستہ اختیار کر لیا۔
اس صدارتی حکم نامے کو سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت صدارتی ریفرنس پر پاکستان کی اعلیٰ عدالت کی رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔