آپ کو امریکہ کی بڑی بڑی مارکیٹوں میں، چھوٹے گروسری اسٹورز، اختتام ہفتہ لگنے والی اوپن مارکیٹوں اور سڑک کنارے اسٹالز میں ’آرگینک فوڈ‘ فروخت ہوتا نظر آتا ہے۔ ان کی قیمتیں معمول سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں، لیکن لوگ ہیں کہ انہی کی جانب لپکتے ہیں۔آخر کیوں؟ اور کیوں اس شعبے میں اتنےفراڈ ہورہے ہیں کہ امریکہ کا خوراک اور ادویات کا محکمہ اپنے ضوابط سخت کرنے پر کام کر رہاہے؟
پہلے تو یہ جانئے کہ ’آرگینک فوڈ‘ ہے کیا، ڈکشنری میں اس کا ترجمہ ہے’نامیاتی خوراک‘۔ لیکن پاکستان کے کسی بھی کسان سے اگر آپ نامیاتی کا مطلب پوچھیں تو شاید نصف کو بھی یہ معلوم نہیں ہوگا کہ وہ اپنی زیر کاشت زمین کے ٹکڑے پر غالبأ نسلوں سے یہی خوراک اگا رہے ہوں گے۔
آرگینک کاشت کاری کی مختصر تعریف یہ ہےکہ اس میں فصلیں اگانےمیں یامصنوعات کو تیار اور محفوظ کرنے سے لے کر صارفین تک پہنچانے کے کسی بھی مرحلے میں کیمیائی مادوں، کھاد یا پھر زرعی ادویات کو استعمال نہیں کیا جاتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح مویشی جن چراہ گاہوں میں چرتے ہیں وہاں بھی اسی اصول پر عمل کیا جاتا ہے اور اس کی باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے۔ ان کے گوشت یا دودھ میں اضافہ کرنے کے لیے انہیں کیمیائی طور پر تیار کردہ اشیا نہیں دی جاتیں۔بلکہ وہ آرگینک خوراک پر پلتے ہیں۔اس میں مویشیوں کے علاوہ مرغیاں اور ٹرکی جیسے برڈ بھی شامل ہیں اور ان کی قیمت فارم کی مرغیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
آرگینک خوراک امریکی جیلوں میں بھی دستیباب ہے
یہ جان کر آپ کو حیرانی ہوگی کہ آرگینک خوراک امریکہ میں صرف مہنگے ریستورانوں میں ہی نہیں بلکہ جیل خانوں میں بھی دستیاب ہے۔
یہاں ایک دلچسپ ٹوئٹ دیکھیئے جس میں ٹوئٹر کے صارف ڈان رانگ ہوم نے این بی سی کی ایک رپورٹ کو شئیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’امریکی کیپیٹل پر دھاوا بولنے والوں میں شامل اس شخص کو اعلیٰ آرگینک خوراک کھانے کو موقع ملے گا جس نے سر پر سینگ لگا رکھے تھے۔‘
کیونکہ جیکب چانسلی کے وکیل نے درخواست کی تھی کہ ان کے موکل آرگینک فوڈ کھاتے ہیں ۔انہیں واشنگٹن کی جس جیل میں رکھا گیا ہے وہاں آرگینک خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہوں نے 9 دن سے کچھ نہیں کھایا ۔
جج نے انہیں واشنگٹن سے ریاست ورجینیا میں الیگزینڈ ریا کے حراستی مرکز میں منتقل کرنے کا حکم دیا جہاں آرگینک خوراک دستیاب تھی۔
SEE ALSO: امریکہ میں لیبارٹری میں تیار کردہ چکن کی فروخت کی منظوریانسانی صحت اور ماحولیات کو نقصان نہ پہنچنے والی اور کاشت کاری کے ساتھ ساتھ کھپت تک ہر مرحلے پر کنٹرول اور سرٹیفیکیٹ کے ساتھ سر انجام پانے والے اس عمل کو آرگینک کاشت کاری کہا جاتا ہے۔ہر گزرتے دن آرگینگ فوڈ کی مانگ میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ نامیاتی مصنوعات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
یہاں میں آپ کو یہ بتاتی چلوں کہ برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس سوم ایک پرعزم ماہر ماحولیات ہیں اور ان کی آرگینک کاشتکاری پر عمل کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی مہم چلانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔
ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ میں عام طور پر ایسی تصاویر دکھائی جاتی ہیں جو ماحولیات سے متعلق برطانیہ اور اس سے باہر ان کی دلچسپی کو ظاہر کرتی ہیں۔ جن میں درخت لگانا، اپنی کلیرنس ہاؤس کی رہائش گاہ میں اگائے جانے والےنامیاتی پھل اور سبزیاں دکھانا اور مغربی انگلینڈ کے گلاسٹر شائر میں واقع ان کے باغ میں اُگنے والے رنگین پھول شامل ہیں۔
وہ ملک کے اندر اور باہر ایسے مراکز کا دورہ کرکے ان مصنوعات کے فروغ کی کو ششوں کا حصہ بنتے ہیں۔
آرگینک فوڈ کی صنعت میں بھی دھوکہ دہی ہو رہی ہے
امریکہ میں آرگینک سرٹیفیکیشن کا تقاضا ہے کہ کسان اور ہینڈلرز اپنے طریقہ کار کو دستاویز کریں اور ہر سال اس کا معائنہ کیا جائے۔ آرگینک آن سائٹ انسپکشن، کاشت کے ہر جزو کے لیے ذمہ دار ہے،جس میں بیج کے ذرائع، مٹی ، بیماریوں سے پاک فصل ، گھاس اور کیڑوں کا انتظام، پانی کا نظام، آلودگی اور اس سے جڑے خطرات کی روک تھام، اور ریکارڈ رکھناشامل ہے۔
حا ل ہی میں امریکی محکمہ زراعت کی جانب سے آن لائن جاری ہونے والے ایک ضابطے میں بتایا گیا ہے کہ آرگینک فوڈ کے معیار پر صارفین کا اعتماد بڑھانے اور اس کاروبارکو مستند بنانے کے لیے 2024 میں نئے قواعد و ضوابط نافذ کیے جا رہے ہیں۔
امریکی محکمہ زراعت نے کہا ہے کہ کئی فصلیں آرگینک گوشت یا انڈوں کے حصول کےلیے مویشیوں اور برڈز کی خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور اگر وہ آرگینک کے معیار پر پوری نہ اتریں تو لاکھوں ڈالر کی دھوکہ دہی کا باعث بن سکتی ہیں۔
آرگینک خوراک کے قواعد کے تحت ریکارڈ کے لیے تصدیق شدہ نامیاتی طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح امریکہ میں لائی جانے والی تمام آرگینک مصنوعات کے لیے درآمدی سرٹیفکیٹ لازمی ہوتا ہے۔
امریکی محکمہ خوراک کی جانب سے نگرانی سخت کرنے کیے جانے کے بعد حالیہ برسوں میں بھارت اور بحیرہ اسود کے خطے سےآرگینک فصلوں کی درآمدات میں کمی ہوئی ہے، اور کچھ درآمد کنندگان پر بھاری جرمانے بھی ہوئے ہیں۔