کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق پولیس افسر راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ پراسیکیوشن ملزمان پر الزامات ثابت کرنے میں ناکام ہوا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہیمانہ واقعہ ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اس کیس میں 51 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے تھے اور حتمی دلائل کے بعد 14 جنوری 2023 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔
نقیب اللہ کے اہلِ خانہ نے پولیس کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیا تھا۔
سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ جھوٹا کیس تھا جو آج انجام کو پہنچا۔ نقیب اللہ محسود ایک مطلوب شخص تھا۔ اس کے خلاف اخبارات میں اشتہارات دیے گئے تھے۔ میڈیا پر ان کی جو تصاویر چلائی گئیں وہ جعلی تھیں۔
کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 25 بے گناہ افراد کو اس مقدمے میں چالان کیا گیا۔
واضح رہے کہ اس مقدمے میں سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت سمیت سات ملزمان مفرور ہیں جب کہ سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے عدالت سے ضمانت لے لی تھی۔
جنوری 2018 میں کراچی کے ضلع ملیر میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں تین شہریوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ان تینوں ملزمان کا تعلق شدت پسند تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے اور یہ شہر میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی کی تیاری کررہے تھے۔
یہ مشتبہ کارروائی اس وقت کے ضلع ملیر کے ایس ایس پی راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس کی ایک ٹیم نے کی تھی۔
کارروائی کے چند روز بعد نقیب اللہ محسود کی سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہوئیں تو معلوم ہوا کہ نقیب اللہ محسود دہشت گرد نہیں بلکہ وہ ماڈل تھا۔
اس معاملے کی ایف آئی آر کے مطابق نقیب اللہ محسود کے والدین کو بھی اس کے قتل کا علم سوشل میڈیا کے ذریعے کئی روز بعد ہوا تھا۔
نقیب اللہ کے والد محمد خان اور ان کے قریبی ساتھی نقیب اللہ محسود کی کسی بھی قسم کے جرائم میں ملوث ہونے کی ہمیشہ تردید کرتے رہے ہیں اور اس کے قتل کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے رہے ہیں۔
واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر مطالبات کے بعد سندھ حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کی جس نے رپورٹ میں بتایا کہ پولیس نے جعلی مقابلے میں نقیب اللہ محسود سمیت تین افراد کو قتل کیا تھا اور ایس ایس پی راؤ انوار ایسے ایک دو نہیں بلکہ 400 سے زائد جعلی پولیس مقابلوں میں ملوث رہے ہیں۔
واقعے اور پھر تحقیقات شروع ہونے پر ایس ایس پی راؤ انوار روپوش ہوکر منظر عام سے غائب ہو گئے تھے۔
ایک بار انہوں نے بیرونِ ملک فرار ہونے کی بھی کوشش کی تھی۔
سپریم کورٹ نے بھی قتل کیس کا ازخود نوٹس لیا تھا جس پر کئی سماعتوں کے بعد راؤ انوار نے خود عدالت میں پیش ہوکر مارچ 2018 میں گرفتاری دی تھی۔
گرفتاری کے بعد راؤ انوار کو جیل میں رکھنے کے بجائے سندھ حکومت نے ان کے ملیر کینٹ میں واقع گھر کو سب جیل قرار دے کر وہاں قید رکھا تھا۔
بعد ازاں جولائی 2018 میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے اس قتل کیس میں ضمانت بھی مل گئی۔
اس کیس میں 25 مارچ 2019 کو ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 18 ملزمان پر فردِ جرم عائد کی گئی اور مقدمے کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
تمام ملزمان نے فردِ جرم سے انکار کیا تھا جب کہ اس سے قبل عدالت نے نقیب اللہ محسود پر دائر غیر قانونی اسلحہ رکھنے، پولیس مقابلے اور دہشت گردی کے مقدمات کو خارج کر دیا تھا۔
نقیب اللہ کے والد محمد خان بیٹے کی موت کے بعد اس کیس کے مدعی بنے اور بڑی تندہی سے ہر جگہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لیے عدالتوں سے لے کر میڈیا اور سیاسی لوگوں سے ملتے رہے۔
ان کی ملاقات اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ہوئی تھی ۔
آرمی چیف نے نقیب اللہ محسود والد کو یقین دلایا تھا کہ فوج انہیں انصاف دلانے کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گی۔
کیس میں 18 مرکزی ملزمان کے ساتھ ساتھ سات دیگر افراد پر بھی فردِ جرم عائد کی گئی تھی جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
اس مقدمے میں مجموعی طور پر 51 گواہوں کے بیان قلم بند کیے گئے۔
کیس کا فیصلہ 14 جنوری کو وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد محفوظ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کئی اہم مطالبات میں سے ایک نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کو سزائے موت دینے کا بھی شامل رہا ہے۔
پی ٹی ایم اس معاملے پر کئی روزہ دھرنا بھی دے چکی ہے، جس میں سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شریک ہوکر اس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔