امریکہ نے بارہا اعلان کیا کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلم ایغور آبادی کا قتل عام ہو رہا ہے اور ان کے انسانی حقوق تلف کیے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود حال ہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی 57 اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں نہ صرف اس مسئلے سے صرف نظر کیا گیا بلکہ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اس اعلیٰ سطحی کانفرنس میں بطور خاص شرکت کی۔
میزبان ملک پاکستان کی دعوت پر وانگ نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس میں شرکت کی، اس کے بعد انہوں نے جمعرات کو افغانستان کا غیر متوقع دورہ کیا اور طالبان لیڈروں سے ملاقات کی۔
واشنگٹن میں قائم انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے اس اجلاس میں چینی وزیر خارجہ کی شرکت اور ایغور مسلم آبادی کے مسئلے کو نظر انداز کیے جانے کی مذمت کی۔
پاکستان میں بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ او آئی سی میں چینی وزیر خارجہ کی بطور مبصرشرکت او آئی سی کی روایت کا ایک حصّہ تھی، میزبان ملک کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ او آئی سی کے غیر رکن اہم اور اعلیٰ سفارتی عہدے دار کو مدعو کر سکتا ہے۔
امریکہ چین پر الزام لگاتا رہا ہے کہ مغربی چین کے سنکیانگ علاقے میں وہ مسلم ایغور برادری سے جبری مشقت لیتا ہے، ان کا قتل عام کرتا ہے ، انہیں کیمپوں میں محصور رکھا جاتا ہے اور ان پر انسانیت سوز مظالم ڈحائے جاتے ہیں، جب کہ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے ، اس کا کہنا ہے سنکیانگ میں تمام نسلی گروپ ہنسی خوشی زندگی گزارت رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایغور کے حق میں مہم چلانے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ او آئی سی کانفرنس میں روہنگیا مسلم برادری ، افغانستان ، فلسطین اور جموں کشمیر کے مسلمانوں کا تو ذکر کیا گیا مگر ایغور مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بات نہیں کی گئی۔
صرف ترکی کے وزیر خارجہ میلوت چاوش اولو نے اس مسئلے کو اٹھایا۔ یونی ورسٹی آف شکاگو میں بین الاقوامی قانون نے پروفیسر رابرٹ بیانچی کا کہنا کہ ترکی کے سیاسی لیڈر عام طور سے ایغور برادری پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے حقوق کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ترکی کا پورے وسطی ایشیاء کے ساتھ مضبوط ثقافتی اور نسلی رشتہ قائم ہے۔
او آئی سی کے اس اجلاس میں وانگ نے اعلان کیا کہ چین اسلامی ملکوں کو 30 کروڑ کوویڈ ویکسین کی خوراکیں فراہم کرے گا۔
واشنگٹن میں قائم سینٹر فار ایغور سٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عبدالکریم ادریس کے مطابق بہت سے اسلامی ملکوں کو مالیاتی سرمایہ کاری کے نام پر چین سے اربوں ڈالر ملتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ " چین سے اربوں ڈالر وصول کرنے کے بعد مشرقی ترکمانستان میں ایغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر یہ ممالک نہ صرف خاموش رہتے ہیں بلکہ انہیں چین کے احکامات بھی بجا لانے پڑتے ہیں"۔ادریس نے وی اے او سے کہا کہ وہ سنکیانگ کے بجائے اس علاقے کو "مشرقی ترکمانستان" کہنا پسند کرتے ہیں۔