وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یوکرین میں جنگ بندی کے لیے چین اور اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کی ثالثی کی تجویز پر سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے ملے جلے ردِعمل کا ا ظہار کیا جا رہا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عالمی دنیا میں مسلمان ممالک کی زیادہ موؐثر آواز نہیں ہے جب کہ چین سمیت روس کے حلیف ممالک نے ابھی تک روسی حملے کی مذمت نہیں کی۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے منگل کو اسلام آباد میں اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب میں یہ تجویز دی تھی کہ چین اور او آئی سی یوکرین بحران کے حل میں ثالثی کی کوششیں کریں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خا ن کی طرف سے یہ تجویز ایک ایسے وقت سامنےآئی ہے جب کئی ممالک اس تشویش کا اظہار کررہے کہ اگر روس اور یوکرین کی جنگ طول پکڑتی ہے تو اس کے عالمی معیشت پر سنگین منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
امریکہ کی ڈیلاویئر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مقتدر خان کہتے ہیں کہ دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح پانچ جوہری ممالک چین، بھارت، شمالی کوریا ، پاکستان اور اسرائیل نے بھی یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت نہیں کی ہے۔
ان کے بقول، اسرائیل کی قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ چونکہ ہم یوکرین کے معاملے پر ثالثی کروانا چاہتے ہیں اس لیے ہم اس معاملے میں غیر جانب دار ہیں۔
مقتدر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شاید پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان بھی مغربی ممالک کویہ تاثر دنیا چاہتے ہیں کہ ہم نے یوکرین پر روس کے حملے کی اس لیے مذمت نہیں کی کیونکہ پاکستان مسلم ممالک کے ساتھ مل کر اس تنازع میں ثالث کا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔
'ثالثی کی کوششیں پہلے سے ہی جاری ہیں'
مقتدر خان کہتے ہیں کہ عمران خان کی تجویز سے پہلے مسلم دنیا کا ایک اہم ملک ترکی پہلے ہی روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کررہا ہے جب دو ہفتے قبل ترکی نے روس اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کے درمیان براہ راست بات چیت کی میزبانی کی تھی۔
اُن کے بقول ،عمران خان کی تجویز کا تعلق پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتِ حال سے ہو سکتا ہے، جب حز ب اختلاف ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کر چکی ہے۔
مقتدر خان کے خیال میں عمران خان یوکرین کے معاملے پر ثالثی کی تجویز کے ذریعے ملک کے اندرونی حالات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے خود کو ایسے مسلم رہنما کی طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جو عالمی سیاست میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اوآئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ او آئی سی فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مقتدر خان کہتے ہیں کہ جب وزیراعظم خان خود یہ کہہ چکے ہیں کہ او آئی سی اسلامی دنیا کے دو اہم معاملات پر کوئی کردار ادا نہیں کر سکی تو ان کے بقول یوکرین کے معاملے پر یہ تنظیم کیسے کوئی کردار ادا کر سکتی ہے ۔
مقتدر خان کہتے ہیں شاید او آئی سی کے پلیٹ فارم سے یوکرین کے معاملے پر ثالثی کی تجویز کو سفارتی سطح پر سنجیدہ نہ لیا جائے۔ ان کے بقول، عمران خان کی یہ تجویز ایک نیوز ہیڈ لائن تو بن گئی ہے لیکن شاید اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہ ہو۔
'سعودی عرب اور امارات بھی غیر جانب دار ہیں'
مقتدر خان کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے دو اہم عرب مسلم ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی روس اوریوکرین کے معاملے پر غیر جانبدار پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہیں، اس لیے، ان کے بقول، شاید مغرب ممالک یوکرین کے معاملے پر او آئی سی سے کوئی بڑی توقع نہ رکھیں۔
مقتدر خان کہتے ہیں کہ وہی بین الاقوامی تنظیمیں عالمی سیاست میں کردار ادا کر سکتی ہیں جو سیاسی اور سفارتی اثر و رسوخ کی حامل ہیں ۔
ان کےبقول، اوآئی سی کوئی بااختیار اور مؤثر تنظیم نہیں ہے کہ وہ عالمی تنازعات میں کوئی موثر کردار ادا کر سکے۔ لیکن مقتدر خان کہتے ہیں کہ اگر مسلم ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم سے یوکرین کو انسانی امداد کی کوئی پیش کش کرتے ہیں تو کیف اس کا خیرمقدم کرے گا۔
مقتدر خان نے کہا کہ یوکرین کے معاملے پر چین ایک محتاط پالیسی اپنا ئے ہوئے ہے، کیونکہ چین کے روس ،امریکہ اور مغربی ممالک ساتھ اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔
مقتدر خان کہتے ہیں کہ اگر چین یوکرین تنازع میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہو گا، تو ان کے بقول، بیجنگ کوشاید اوآئی سی کی ضرورت نہ ہو کیوں کہ چین دنیا کا دوسرا بڑا اہم ملک ہے اور چین یوکرین کے معاملے پر روس اور امریکہ کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہے۔
'او آئی سی کے رُکن ممالک کے اندر بھی اختلافات ہیں'
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ او آئی سی کے رکن ممالک کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے ان کا یوکرین تنازع سے متعلق کوئی متفقہ مؤقف اختیار کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نجم رفیق نے کہا کہ مسلمان ممالک اپنے باہمی اختلافات کی وجہ سے تقسیم ہیں اس لیے وہ یہ سمجھنےسے قاصر ہیں کہ روس اور یوکرین جیسے تنازعات میں او آئی سی ثالث کا کردار کیسے ادا کر سکتی ہے۔
نجم رفیق کہتے ہیں کہ چین ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے ا ور چین کے اکثراسلامی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر ہونے نئی تبدیلیوں کے پیشِ نظر چین نے روس کی یوکرین میں فوجی مداخلت کی مذمت نہیں کی ہے۔
یادر ہے کہ پاکستان کے وزیرِِ اعظم نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب مغربی ممالک پاکستان سے توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان یوکرین روس تنازع میں مغربی ممالک کی حمایت کرے۔
پاکستان یوکرین اور روس کے تنازع میں ایک غیر جانبدار مؤقف اختیار کیے ہوئے ہےلیکن تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے لیے مغربی ممالک کی توقعات کو نظر اندز کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔
مقتدر خان کہتے ہیں کہ شایدچین کے ساتھ اپنے پائیدار تعلقات کی وجہ سے پاکستان امریکہ کے اثروسوخ کو قبول نہ کرے لیکن روس کے معاملے میں پاکستان کے لیے امریکہ کے اثر و رسوخ اثر کو نظر انداز کرنا شاید آسان نہ ہو۔