بھارت کی ریاست کرناٹک میں کالجز طالبات کے حجاب پہننے کے معاملے میں اب مزید شدت آ گئی ہے۔ ریاست میں مذہبی فسادات کے خدشے کے پیشِ نظر تمام کالجز کو پہلے ہی تین روز کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
منگل کو ریاست کرناٹک کے شہر مندیا کے پری یونیورسٹی کالج میں زعفرانی رنگ کے رومال گلے میں لپیٹے چند ہندو نوجوانوں نے ایک باحجاب طالبہ مسکان کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ نوجوانوں نے طالبہ کے سامنے کھڑےہو کر 'جے شری رام' کے نعرے لگائے اور طالبہ نے ان نعروں کا جواب 'اللہ اکبر' کے نعرے سے دیا۔ اسی اثنا میں کالج کا عملہ طالبہ کو لڑکوں کے نرغے سے دور لے گیا۔
اس واقعے کی ویڈیو اتنی وائرل ہوئی کہ اس نے پاکستان اور بھارت کے ذرائع ابلاغ میں جگہ بنا لی اور دونوں ملکوں میں سوشل میڈیا پر مذہبی آزادی کے معاملے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
پری یونیورسٹی کالج میں پیش آنے والے واقعے کے بعدریاست کرناٹک بھر میں ایک جانب حجاب پہنے طالبات اور دوسری جانب زعفرانی رنگ کے رومال گلے میں لٹکائے نوجوانوں کے احتجاج میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔بھارت میں برقعہ اور زعفرانی رنگ کے آمنے سامنے آنے کو معاشرے کی تقسیم سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔
'جے شری رام 'کا نعرہ لگانے والے نوجوانوں کے سامنے ڈٹ جانے والی مسکان کی جہاں تعریفیں کی جا رہی ہیں وہیں طالبہ کو ہراساں کیے جانے کے اس عمل پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔
SEE ALSO: بھارت: آر ایس ایس کے سربراہ کا مسلم مخالف بیانات سےاظہارِ لاتعلقیواضح رہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے ریاست کرناٹک کے بعض کالجز میں حجاب کے معاملے پر طالبات اور انتظامیہ کے درمیان اختلافات جاری ہیں اور یہ معاملہ ہائی کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے۔
سیکنڈ ایئر کی طالبہ مسکان کا کہنا ہے کہ 'جے شری رام' کا نعرہ لگانے والے لڑکوں کا سامنا کرنے سے وہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں اور وہ حجاب پہننے کے اپنے حق کے لیے لڑائی جاری رکھیں گی۔
بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' سے بات کرتے ہوئے مسکان کا کہنا تھا کہ جب وہ کالج پہنچیں تو چند اوباش لڑکوں نے اس لیے انہیں کالج میں داخلے سے روکنے کی کوشش کی کیوں کہ انہوں نے برقعہ پہن رکھا تھا۔
ان کے بقول جب دونوں طرف سے نعروں کا تبادلہ ہوا تو اسکول کے پرنسپل اور اساتذہ نے ان کا تحفظ کیا۔
مسکان نے کہا کہ ان کے خیال میں لڑکوں کے ہجوم میں دس فی صد اسی کالج کے طالب علم تھے اور دیگر کالج کے باہر کے لوگ تھے۔
مسکان کے بقول، ''ہماری ترجیح ہماری تعلیم ہے اور وہ ہماری تعلیم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔''
مسکان نے بتایا کہ پہلے وہ کلاس میں برقعہ اتار لیتی تھیں اور صرف اسکارف سر پر ہوتا تھا لیکن اب ان سمیت دیگر طالبات مکمل طور پر برقعے میں ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ حجاب کے لیے اپنا احتجاج جاری رکھیں گی کیوں کہ ان کے بقول یہ مسلم لڑکیوں کے لباس کا حصہ ہے۔
نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حجاب پوش مسلم طالبات کو تعلیم سے محروم کرنا خوف ناک ہے۔انہوں نے بھارت کے رہنماوں سے اپیل کی کہ وہ مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی رویے کو روکنے کے لیے کردار ادا کریں۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کی جنرل سیکریٹری پریانکا گاندھی نے حجاب کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق خواتین کو ہے کہ وہ کیا پہنیں اور کیا نہ پہنیں۔ ان کے بقول گھونگھٹ نکالنے یا حجاب پہنے کا فیصلہ خواتین کو ہی ہونا چاہیے۔
احتجاج کا آغاز کب ہوا؟
بھارت کے تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے کا معاملہ ریاست کرناٹک کے شہر اوڈیپی کے گورنمنٹ گرلز پی یو کالج سے شروع ہوا تھا۔ گزشتہ ماہ چھ طالبات نے الزام عائد کیا تھا کہ حجاب پہننے پر انہیں کلاس میں داخل ہونے سے روک دیا گیا جس پر مسلم طالبات نے احتجاج کیا۔
اوڈیپی کے سرکاری کالج سے شروع ہونے والے احتجاج کا دائرہ بعدازاں مندیا اور شیواموگا شہر تک پہنچ گیا جس کے بعد کالجز نے حجاب پر پابندی لگا دی۔
طالبات کے حجاب پہننے کے حق کی تحریک جب مزید زور پکڑنے لگی تو اس کے جواب میں زعفرانی رنگ کے رومال پہنے نوجوان بھی مسلم طالبات کے خلاف کھڑے ہو گئے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق بدھ کو ریاست کرناٹک میں حجاب اور زعفرانی رومال پہنے نوجوانوں کے درمیان جھگڑوں کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ ہری ہارا اور ڈوینگر شہروں میں یہ لڑائیاں مذہبی فسادات کی صورت بھی اختیار کر گئیں۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا جس پر پولیس نے امن و امان بحال کرنے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔