گرجا گھروں اور عبادت گاہوں کو تاریخی طور پر امریکی معاشرے میں اہم سماجی مقام حاصل رہا ہے اور بہت سے مواقع پر انہوں نے فعال سیاسی کردار بھی ادا کیے ہیں۔ لیکن چند برسوں سے کئی وجوہات کی بنا پر عبادت گاہوں میں جانے والوں کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔
سماجی علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان گھر اور کام کی جگہوں کے علاوہ کہیں اور بھی مل بیٹھنے کی خواہش رکھتا ہے جہاں وہ دوسروں سے مل سکے، خیالات کا تبادلہ کر سکے اور ایک دوسرے سے رابطے بڑھا سکے۔ پہلے یہ جگہ گرجا گھراور عبادت گاہیں ہوا کرتی تھیں، لیکن ان کی جانب بڑھتی ہوئی عدم دلچسپی کی بنا پر ایک خلا پیدا ہو رہا ہے، جسے ماہرین کےمطابق کافی شاپس جیسی جگہیں بھر سکتی ہیں۔
سروے سینٹر آن امریکن لائف کے ڈائریکٹر اور امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کےسینئر فیلو ڈینیئل کاکس کہتے ہیں کہ امریکی تاریخ میں گرجا گھروں کی بہت اہمیت رہی ہے۔ وہ کمیونیٹیز کو متحد کرنے اور ان میں ہم آہنگی پیدا کرنے، سماجی مصروفیات اور سیاسی شراکت کی حوصلہ افزائی کرنے میں ایک غیر واضح کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
کاکس کہتے ہیں کہ یہ کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں ہے کہ شہری حقوق کی تحریک گرجا گھر سے ہی ابھری تھی، جب کہ ہم اسے ثقافتی طور پر دیکھتے ہیں۔اسی طرح چاہے سفید فام دیہی کمیونیٹیز ہوں، یا مضافاتی علاقے ہوں، گرجا گھروں کا کردار تاریخی طور پر اہمیت کا حامل رہا ہے۔
کاکس کہتے ہیں کہ گرجا گھروں اور عبادت گاہوں نے تارکین وطن کے امریکہ پہنچنے کے بعد انہیں معاشرے میں ضم ہونے میں مدد دینے میں کردار ادا کیا ہے۔
ایک سروے کے مطابق 1999میں، 70 فی صد امریکیوں کا کہنا تھا کہ وہ گرجا گھر، مسجد یا دیگر عبادت گاہوں میں جاتے ہیں۔ 2020 تک، یہ تعداد 47 فیصد رہ گئی ، 2019 کے ایک سروے سے پتہ چلا کہ 10 میں سے صرف تین امریکی گرجا گھروں کی ہفتے وار عبادت میں شرکت کر رہے تھے۔
سماجیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ معاشرتی زندگی میں عبادت گاہوں کے گھٹتے ہوئے کردار کی بنا پر جو خلا پیدا ہو رہا ہے، اسے کافی شاپس، ٹی اسٹال یا اسی طرح کے دیگر عوامی مقامات بھر سکتے ہیں۔
ایک ماہر سماجیات رے اولڈن برگ کہتے ہیں کہ گھراور کام کی جگہ کے بعد مل بیٹھنے کا تیسرا مقام ہماری معاشرتی زندگی میں جو کردار ادا کرتا ہے، اس کی جگہ پہلا اور دوسرا مقام یعنی گھر اور کام کی جگہ نہیں لے سکتی۔
اولڈن برگ کہتے ہیں کہ "تیسرے مقامات" کمیونٹی کی سماجی قوت کےلیے اہم ہیں۔امریکن سروے سینٹر کے اکتوبر 2021 میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ کافی ہاؤسز جیسے کاروباری مقامات امریکی کمیونٹیز میں اعتماد اور تعلق کو فروغ دیتے ہیں اور عبادت گاہوں کے گھٹتے ہوئے کردار کی جگہ پر کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
وہ اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی کافی شاپ میں باقاعدگی سے جاتے ہیں تو شاپ کے سٹاف کو پتہ ہوتا ہے کہ آپ عام طور پر کیا آرڈر کرتے ہیں اور آپ کو کس طرح کی چیز اچھی لگتی ہے۔ وہ آپ کے لیے وہی کچھ کرتے ہیں۔
یونیورسٹی آف سینسناٹی کالج آف میڈیسن کی ایک ماہر نفسیات ماریہ ایس پینولا کہتی ہیں کہ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ لوگ آپ کی پروا کرتے ہیں ۔تعلق اور انسانی تعلق کی ضرورت ہم سب کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک تیسری جگہ کی ضرورت پڑتی ہے۔
2019 میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا کہ سماجی زندگیوں سےعبادت گاہوں کا کردار گھٹنے کے بعد اس ضرورت کو کافی شاپس، ریستوران اور پارک وغیرہ پورا کر رہے تھے۔ اس سروے میں 67 فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں سے میل ملاپ کے لیے کافی شاپس اور ریستوران جاتے ہیں۔ لیکن 2021 کے سروے میں یہ تعداد گھٹ کر 56 فی صد ہو گئی جس کی وجہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ تھا۔
کاکس کہتے ہیں کہ کافی شاپ کی مختصر ملاقاتیں بھی تعلق کے إحساس کو بڑھا دیتی ہیں۔ اور عبادت گاہوں میں لوگوں کی آمد و رفت گھٹنے کے ساتھ کافی شاپس کا کردار بڑھتا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں ہماری سماجی زندگیوں میں جو کردار عبادت گاہیں ادا کر رہی تھیں، کافی شاپس کافی حد تک اس کی جگہ لے لیں گی۔