|
واشنگٹن — شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں رہنے والے طفیل داوڑ 30 اپریل کے ہول ناک دن کو یاد کرتے ہیں جب وہ اور ان کے گاؤں والے باہر ہونے والی مسلسل فائرنگ میں پھنس گئے تھے۔
طفیل داوڑ بتاتے ہیں کہ اُس روز سیکیورٹی فورسز کے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران پورے دن فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا تھا۔ فائرنگ کی زد میں آنے سے داوڑ کا ایک کزن زخمی ہوگیا تھا جس کا مقامی اسپتال میں علاج جاری ہے۔
افغانستان کی سرحد سے ملحق پاکستان کے قبائلی اضلاع کے رہنے والوں نے وی او اے ڈیوا کو بتایا ہے کہ ملٹری آپریشنز کی وجہ سے کئی علاقے نو گو زونز میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ان کی روز مرہ آمد و رفت بھی محدود ہوگئی ہے۔
مولانا نقیب اللہ خان نے ٹیلی فون پر وی او اے ڈیوا کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے ہمارے گاؤں کو 'نو گو' زون قرار دے رکھا ہے۔ یہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو رہا۔ یہاں گزر بسر کے ذرائع نہیں ہیں اور کئی خاندان فوجی آپریشنز کی وجہ سے نقل مکانی کر گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران مقامی افراد نے سیکیورٹی فورسز سے بات چیت کے بعد ایسے 60 افرد کو رہا بھی کرایا ہے جنہیں عسکریت پسندوں کو خوراک اور طبی امداد دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان کی فوج کا کہنا ہے کہ فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک میں دہشت گردی کے خلاف روزانہ 100 سے زائد آپریشن کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مزدور گوادر میں قتل
پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ رواں برس سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف 13 ہزار 135 آپریشنز کیے ہیں۔
ان کے بقول ان کارروائیوں کے دوران "249 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا اور 396 گرفتار کیے گیے ہیں۔"
وائس آف امریکہ نے فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے عہدے دار بریگیڈیئر غضنفر سے واٹس ایپ کے ذریعے ان آپریشنز کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے رابطہ کیا تاہم انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
منگل کو افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی آصف درانی نے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک نشست میں بتایا کہ 2021 میں طالبان کے افغانستان میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
پشاور میں مقیم ایک تجزیہ کار حق نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی کوئی واضح حکمتِ عملی نہیں رکھتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ماضی میں مذاکرات اور فوجی کارروائی کی دونوں حکمتِ عملیاں اختیار کی ہیں۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور پاکستان کی فوج اور سیاسی قوتوں کو مل کر نئی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔
SEE ALSO: سال 2023 پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہت بھیانک رہا: ہیومن رائٹس کمیشن
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر نظر رکھنے والے اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فور ریسرچ اینڈ سیکیورٹیز اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے مطابق 2023 کے ابتدئی تین ماہ کے مقابلے میں 2024 کے اسی عرصے کے دوران 17 فی صد زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق رواں برس کے ابتدائی تین ماہ میں حملوں اور فوجی کارروائیوں کے 245 واقعات ہوئے ہیں جن میں مجموعی طور پر 432 ہلاکتیں ہوئیں اور 370 افراد زخمی ہوئے۔
ان اعدادو شمار کی صوبائی تقسیم فراہم نہیں کی گئی ہے تاہم سی آر ایس ایس کے مطابق تشدد کے 92 فی صد واقعات خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے ہیں۔
(یہ خبر وی او اے ڈیوا سروس سے لی گئی ہے)