رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی سے کشمکش، فوج کے مورال پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟


  • نو مئی کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کی وجہ سے فوج اب تک شدید ناراض ہے، دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز
  • فوج کو اس وقت دکھ اس بات کا ہے کہ اس کے امیج کو بہت نقصان پہنچایا گیا ہے، لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی
  • سوشل میڈیا اس وقت فوج پر دباؤ بڑھانے میں پیش پیش ہے، تجزیہ کار عائشہ صدیقہ
  • فوجی ترجمان کی حالیہ پریس کانفرنس پر آنے والے ردِ عمل سے فوج اور سیاسی جماعت کے درمیان پولارائزیشن کھل کر سامنے آئی ہے، بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر
  • فوج کے خلاف مہم چلتی رہی تو دشمن کو ملک کے اندر آکر کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں، سابق فوجی افسر
  • نو مئی واقعات کی تحقیقات کروا کر صورتِ حال کو ختم کیا جائے، خالد لودھی

نو مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملے اور اس کے بعد پاکستان کی سیاست میں آنے والی تبدیلیوں کے دوران فوج پر اس واقعے کے اثرات کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران فوج اور عوام کے درمیان دُوریاں مزید بڑھیں جب کہ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ تلخیاں بھلا کر ملک کی خاطر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ نو مئی کے ذریعے فوج اور عوام کے درمیان دُوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔

نو مئی واقعات نے پاکستان کی فوج کی ساکھ پر کیا اثر ڈالا؟ فوج کے اندر اس معاملے سے متعلق کیا سوچ ہے؟ اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے مختلف تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔

اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جس طرح پاکستان کی فوج کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ماہرین کے مطابق ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج اور فوجی افسران کے لیے نیوٹرلز، میر جعفر اور ڈرٹی ہیری جیسے الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد فوج پر تنقید میں شدت آئی اور فوج کے رہائشی منصوبوں سمیت کاروبار سے متعلق چیزیں سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔

واضح رہے کہ نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور کئی شہروں میں ہجوم نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بھی بنایا تھا۔

'فوج اب تک ناراض ہے'

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کہتے ہیں نو مئی کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کی وجہ سے فوج اب تک شدید ناراض ہے اور سمجھتی ہے کہ عوام اور فوج کو تقسیم کرنے کا بیانیہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے پورا کیا گیا ہے۔

حارث نواز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان فوج سمجھتی ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے فوج اور عوام کو ایک دوسرے سے دور کیا۔ کبھی میر جعفر، کبھی جنرل فیض، کبھی کسی اور جنرل کا نام لے کر تنقید کی جاتی رہی اور پھر نو مئی آ گیا۔

لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا بھی خیال ہے کہ فوج کو اس وقت دکھ اس بات کا ہے کہ اس کے امیج کو بہت نقصان پہنچایا گیا ہے۔

ان کے بقول سیاچن میں بیٹھا سپاہی، یا سرحدوں کی حفاظت میں دن رات جنگلوں اور پہاڑوں پر رہنے والا فوجی جب اپنے گھر آتا ہے یا پھر سوشل میڈیا دیکھتا ہے تو اسے فوج سے متعلق پیش کیا جانے والا امیج دکھی کرتا ہے اور بحیثیت ادارہ مجموعی طور پر فوج اس پر بہت ناراض ہے۔

پاکستان فوج پر دباؤ کے حوالے سے ایک سوال پر تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اس وقت فوج پر دباؤ بڑھانے میں پیش پیش ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو سب معلومات مل رہی ہیں اور لوگوں کے ذہن بدل رہے ہیں۔

فوج کے مورال میں کوئی کمی آئی؟

سابق فوجی افسر بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر کا کہنا ہے کہ فوجی ٹینکس، میزائل، شہدا اور ہر چیز کا مذاق اڑانا ایک معمول بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے دشمن کو فوج کی تضحیک کرنے کا موقع ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فوج بھی عوام میں سے ہے لیکن جب اس کے خلاف لگاتار بات کی جاتی ہے جس کی وجہ سے فوج کا ڈی مورلائز ہونا لازم ہے اور جب رینکس اینڈ پروفائل پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس سے فوج میں تفریق پیدا ہوتی ہے۔

تجزیہ کار حارث نواز نے کہا کہ افواج ایک بیریئر کے اندر رہتی ہیں لیکن جب بار بار اس بیریئر میں داخل ہوا جائے تو احترام اور لحاظ ختم ہو جاتا ہے۔ اوپر سے اس پر کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے کیوں کہ اگر کوئی شرمندگی ہو تو کچھ وقت کے بعد یہ معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔

جنرل ریٹائرڈ لودھی کے خیال میں افواجِ پاکستان کو حالیہ عرصے کے دوران ہونے والی تنقید کے نتیجے میں ضرور دکھ ہوا ہے لیکن اس کے مورال میں کوئی کمی نہیں آئی۔

کیا فوج اندرونی طور پر اختلاف کا شکار ہے؟

تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے خیال میں اس وقت فوج میں ایک تقسیم موجود ہے اور فوج اس کا جواب دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال کے دوران دو سینئر فوجی افسران (کور کمانڈر لاہور سلمان فیاض غنی اور کور کمانڈر منگلا ایمن بلال صفدر) کو گھر جانا پڑا جن کی فراغت سے دیگر افسران اور فوج کو ایک پیغام دیا گیا۔

ان کے بقول، اس وقت ایک الگ قسم کی ہوا چل رہی ہے جس میں فوج کو اپنے اندر سے تقسیم کے علاوہ عدلیہ مخالفت کا سامنا بھی ہے۔

عائشہ صدیقہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے انٹیلی جینس اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق سامنے آنے والا خط اور حالیہ عدالتی فیصلے سے متعلق کہا کہ یہ چیزیں فوج پر دباؤ بڑھا رہی ہیں۔

نو مئی 2023 کے بعد فوج کے اندر اختلافات سے متعلق سوال پر بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے کہا کہ اس کا امکان موجود تھا لیکن فوج نے اس پر فوری ایکشن لیا اور حالات پر قابو پاتے ہوئے چند افراد کو سزائیں بھی دیں۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کورکمانڈر کانفرنس کے دوران واضح لائن اختیار کی اور اس وقت فوج میں ایسی کوئی تفریق موجود نہیں۔

لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی فوج میں تقسیم کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایک سال میں فوج کے درمیان تفریق پیدا ہو گئی ہے اور اس میں کوئی گروہ بندی ہے تو یہ بالکل غلط بات ہے کیوں کہ ایسا ممکن نہیں۔

ان کے بقول فوج کے اندر ایک ایسا نظام موجود ہے جس کے تحت تفریق پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا ہے۔

'فوج پر حملے اب بھی جاری ہیں'

بریگیڈئیر ریٹائرڈ سید نذیر کے خیال میں پچھلے ایک سال میں جو کچھ ہوا اور اس کے بعد فوجی ترجمان کی حالیہ پریس کانفرنس پر آنے والے ردِ عمل سے فوج اور سیاسی جماعت کے درمیان پولارائزیشن کھل کر سامنے آئی ہے۔

انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو صرف ملک میں موجود چند کارکن، یا بیرونِ ملک بیٹھے افراد یا پھر فیک اکاؤنٹس کے ذریعے فوج پر تنقید کی جاتی تھی لیکن اب ان کے لیڈرز کی طرف سے فوج کے لیے سخت زبان استعمال کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ترجمان نے منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ سیاسی انتشاری ٹولے کے ساتھ کوئی بات نہیں ہو سکتی تاوقتیکہ وہ معافی نہیں مانگ لیتا۔

فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس پر پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ وہ مظلوم ہیں معافی تو ان سے مانگی جانی چاہیے۔

سید نذیر کے مطابق پی ٹی آئی کی طرف سے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھ کر صورتِ حال کو معمول پر لانے اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے لگاتار حملے کیے جارہے ہیں۔ اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں سے نہیں فوج سے مذاکرات کرنا ہیں، معافی بھی نہیں مانگنی اور فوج مخالف بیانیہ بھی رکھنا ہے۔ اگر فوج کے خلاف ایسی مہم چلتی رہی تو دشمن کو ملک کے اندر آکر کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں۔

پی ٹی آئی اور فوج کی لڑائی کہاں جا کر رکے گی؟

تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں فوج نے نو مئی واقعات کی تحقیقات کے لیے معاملہ 2014 کے دھرنے سے شروع کرنے کی تجویز پر کہا کہ فوجی ترجمان کی یہ تجویز ہوائی بات ہے۔ ان کے خیال میں نہ تو کسی دھرنے کی تحقیقات ہوں گی اور نہ ہی کبھی نو مئی واقعات کی تحقیقات ہو سکے گی۔

البتہ جنرل لودھی کہتے ہیں فوج کا کہنا ہے کہ اس کے پاس سکہ بند ثبوت موجود ہیں کہ نو مئی واقعات میں پی ٹی آئی ملوث ہے جب کہ پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری عمر ایوب بھی کہہ چکے ہیں کہ نو مئی واقعات کی تحقیقات کروا لی جائیں اور اگر ثابت ہوا تو معافی مانگیں گے۔

جنرل لودھی کہتے ہیں ان کے خیال میں یہ ایک موقعہ ہے کہ فوری طور پر نو مئی واقعات کی تحقیقات کروا کر صورتِ حال کو ختم کیا جائے۔

فورم

XS
SM
MD
LG