پاکستانی نژاد امریکیوں کی پرانی تنظم، ’پاکستان امریکن کانگریس‘ نے منگل کے روز اپنی ’سلور جوبلی‘ مناتے ہوئے، واشنگٹن میں کانگریس کے ایوانوں کے حلقے کے قریب سالانہ ’پاکستان امریکہ دوستی‘ اور ’ون ڈے ایٹ دِی کپیٹول ہِل‘ کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر، اپنی تقاریر میں متعدد امریکی قانون سازوں، برادری کی نامور شخصیات اور دیگر امریکی احباب نے پاکستان امریکی تعلقات اور امریکہ میں برادری کی کامیابیوں اور حالات کا جائزہ لیا۔
اس موقعے پر اپنے خطاب میں، امریکی قانون سازوں نے پاکستانی نژاد امریکی برادری کی ملک کے مختلف شعبوں میں نمایاں اور قابلِ ذکر خدمات کو سراہا۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے اِس ضرورت پر زور دیا کہ اُنھیں چاہیئے کہ ’’امریکی سیاسی نظام میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، چاہے نچلی ترین سطح پر ہی سہی؛ جس کے بغیر، وہ معاشرے میں مؤثر کردار ادا نہیں کر پائیں گے‘‘۔
کانگریس وومین، اور ’پاکستان کاکس‘ کی سابق سربراہ، شیلا جیکسن لی؛ نیو یارک سے امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندے، ٹام سوزی؛ نیو جرسی سے رُکنِ کانگریس، ڈونالڈ نورکروس؛ ورجینیا سے ری پبلیکن پارٹی کی کانگریس وومین، باربرا کومسٹپ؛ میری لینڈ کے رکنِ کانگریس، وان ہولن اور پنسلوانیا سے رُکنِ کانگریس، برائن فٹزپیٹرک؛ کے علاوہ معروف ’پیرا ٹروپر‘ اور جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار، تھامسن ہولاہون؛ ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے، الیگزینڈریا کی فیئرفیکس کاؤنٹی کے چیرمین، میٹ ایمز؛ پاکستان کے سابق سینیٹر اکبر خواجہ؛ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم، بیرسٹر سلطان محمود؛ امریکی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی اہل کار، لورا کیسی؛ اور پاکستان امریکن کانگریس کے عہدے داران خواجہ اشرف اور سلیم اختر؛ اور سابق و موجودہ صدور ایم اے طور اور اسد چودھری نے خطاب کیا۔
امریکی قانون سازوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات پر روشنی ڈالی اور یقین دلایا کہ وہ تعلقات میں بہتری لانے میں مدد فراہم کرنے پر تیار ہیں۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے زور دیا کہ ’’سرکاری اور نجی سطح پر دلچسپی لینے اور ٹھوس کام کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے آگے بڑھنا ہوگا‘‘۔
شیلا جیکسن لی نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے چند مسلمان اکثریتی ملکوں کو ویزا جاری کرنے پر پابندی کے اقدام کا ذکر کیا اور کہا کہ ’’اس طرح کا امتیاز برتنا امریکی قانون و روایات کے منافی عمل ہے‘‘۔
مہمانِ خصوصی کے طور پر اپنے خطاب میں، رکن کانگریس ڈونالڈ نورکروس نے کہا کہ ''پاکستانی برادری کو قومی دھارے میں آکر، سیاسی نظام کا حصہ بننا ہوگا''۔
بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے امریکی انتظامیہ پر زور دیا کہ مسئلہٴ کشمیر کے حل کے لیے ’’ثالث کا کردار‘‘ ادا کیا جائے۔
جنوبی ایشیا سے متعلق تجزیہ کار، تھامسن ہولاہون نے کہا کہ رائے عامہ کا ایک تازہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ ’’چھ میں سے پانچ امریکی پاکستان کے بارے میں مثبت تاثر نہیں رکھتے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ موجودہ ری پبلیکن انتظامیہ کے دور میں ’’پاکستان کو ایف 16 طیارے ملنے کی توقع نہیں دکھائی دیتی، جب کہ پاکستان کے لیے اتحادی فنڈ کی رقوم میں کمی کا امکان ہو سکتا ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ سرکاری اور نجی سطح پر باہمی تعلقات میں بہتری لانے کی سرگرم اور ٹھوس کوششیں کی جائیں۔
تاہم، اُنھوں نے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی ''بے تحاشہ'' قربانیوں اور پختہ عزم کو سراہا۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے امریکی مشیر، مک ماسٹر دو عشروں سے زیادہ عرصہ افغانستان میں رہے ہیں، اور ’’خطے کے امن، سلامتی اور استحکام میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں‘‘۔
سینیٹر اکبر خواجہ نے پاکستان امریکہ تعلقات کا تفصیلی احاطہ کیا اور باہمی روابط بڑھانے پر زور دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی سطح پر تعلقات کو فروغ دینے کی تدبیر کی جائے۔
فیئرفیکس کاؤنٹی کے سربراہ، میٹ ایمز نے مختلف شعبہ جات میں پاکستانی برادری کی قابل قدر خدمات کو سراہا؛ اور کہا کہ تعلیم کے میدان میں برادری کی دلچسپی ''قابلِ قدر ہے''۔
'پی اے سی' کی گورننگ بورڈ کے سکریٹری، خواجہ اشرف نے تنظیم کی تاریخی خدمات کا تفصیلی ذکر کیا اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ نوجوان آگے آئیں اور اس کی ذمہ داریاں سنبھالیں، اور تجربہ کار احباب کو چاہیئے کہ اُن کی آبیاری کا مؤثر کام انجام دیں، ''جو ہی دراصل برادری کی اصل خدمت ہے''۔
تنظیم کے سبک دوش ہونے والے صدر، ایم اے طور نے 'پی اے سی' کی سال بھر کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ نئی پود کی آگہی، تعلیم و تربیت اور برادری سے تعلق رکھنے والے ذہین اور پیشہ ور احباب کی بہتر رہنمائی پر توجہ دی جا رہی ہے۔
اپنے کلمات میں، ’پی اے سی‘ کے نئے صدر، اسد چودھری نے کہا کہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی صورتِ حال ’’اطمینان بخش نہیں ہے‘‘۔ اُنھوں نے طویل مدتی باہمی تعلقات کے فروغ پر زور دیا اور تجویز پیش کی کہ پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری بڑھائی جائے، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں اس اقدام کی بہت ضرورت ہے۔
پاکستانی امریکن کانگریس کا عہدہ سنبھالنے والے نئے صدر، ری پبلیکن پارٹی کی جانب سے ورجینیا کے لیے جنوب ایشیائی امور کے 'پوائنٹ پرسن' بھی ہیں۔